بھارت پاکستان کے خلاف طاقت کا استعمال کرسکتا ہے، امریکی انٹیلی جنس

0
239

واشنگٹن(این این آئی)ایک امریکی انٹیلجنس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت، پاکستان کی جانب سے سمجھے جانے والی یا حقیقی اشتعال انگیزی پر فوجی طاقت سے جواب دے سکتا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق خطرے کے جائزے کی سالانہ رپورٹ 2021 یو ایس ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس نے تیار کر کے کانگریس کو ارسال کی ۔رپورٹ میں چین کی عالمی طاقت کے لیے کوشش کو امریکی مفادات کے لیے سب سے پہلا خطرہ قرار دیا گیا جس کے بعد روس کے اشتعال انگیز اقدامات اور ایران سے متعلق خطرات ہیں۔تعارفی نوٹ میں ڈائریکٹر ڈی این آئی ایورل ہینز نے لکھا کہ یہ رپورٹ پالیسی بنانے والوں، جنگیں لڑنے والوں اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نازک پہلو، آزادانہ اور سادہ جائزہ فراہم کرتی ہے۔جنوبی ایشیا سے ممکنہ خطرات کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ ‘وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی جانب سے ماضی کی بنسبت پاکستان کی سمجھے جانے والی یا حقیقی اشتعال انگیزی پر فوجی طاقت سے جواب دینے کا زیادہ امکان ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ خطے میں سخت کشیدگی نے 2 جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک کے مابین تنازع کا خطرہ بڑھا دیا ہے جس میں کشمیر میں پر تشدد بے امنی یا بھارت میں عسکری حملہ ممکنہ خطرات ہیں۔ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سال 2021 کے دوران بھارت اور پاکستان کے بیچ ایک عمومی جنگ کا امکان نہیں لیکن دونوں کے درمیان بحران مزید شدید ہوسکتا ہے جس سے کشیدگی کے چکر کا خطرہ ہے۔خیال رہے کہ اس سے قبل کانگریس کو بھجوائی گئی ایک اور امریکی انٹیلجنس رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان آئندہ 5 سالوں میں حقیقی یا سمجھی گئی اشتعال انگیزی پر جنگ ہوسکتی ہے۔رپورٹ میں اندازہ لگایا گیاکہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان 2021 میں امن معاہدے کے امکانات کم ہیں۔اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کابل کو لڑائی کے میدان میں دھچکوں کا سامنا رہے گا اور طالبان پر اعتماد ہیں کہ وہ عسکری فتح حاصل کرسکتے ہیں۔ڈی این آئی کا کہنا تھا کہ افغان فورسز بڑے شہروں اور حکومت کے دیگر مضبوط علاقوں کو اپنے پاس رکھیں گی لیکن وہ دفاعی مشنز سے منسلک رہیں گے اور 2020 میں ترک کیے گئے علاقوں میں دوبارہ موجودگی یا دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے جدو جہد کریں گے۔افغانستان میں ایران کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایران نے سرِ عام افغان امن عمل کی حمایت کی ہے لیکن وہ افغانستان میں امریکا کی طویل موجودگی پر پریشان ہے۔جس کے نتیجے میں ایران کابل حکومت اور طالبان دونوں سے اپنے تعلقات بنا رہا ہے تا کہ کسی بھی سیاسی نتیجہ سے فائدہ اٹھا سکے۔