سیلابی صورتحال کا تقاضہ ہے الیکشن کو مزید آگے بڑھا دیا جائے، بلاول بھٹو

0
425

کراچی (این این آئی)وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے ایک تہائی پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے، اس صورتحال کا تقاضہ ہے کہ الیکشن کو مزید آگے کیا جائے،سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ پاز کا بٹن دبا دیں، ہمیں سیلاب متاثرین کی مدد کرنی ہے،یہ نہیں ہو سکتا کہ 2 پاکستان ہوں، یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک پاکستان میں سیاسی گیم ہوتا رہے، ایک ملک ہے تو مل کر مقابلہ کرنا پڑے گا،امیر ممالک نے امیر بننے کے لیے پاکستان پر بوجھ ڈالا جو موسمیاتی تبدیلیاں لے آئے، دنیا کے سامنے سیلاب متاثرین کا مقدمہ پیش کیا ہے،ہم بھیک نہیں انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں، اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل جنرل اسمبلی سے پہلے ہی پاکستان پہنچے، پیرا میڈک اسٹاف خود بھی متاثر ہے ، کراچی میں تاریخی بارشیں ہوئیں، انفرااسٹرکچر کو نقصان نظر آ رہا ہے، یہاں بارش سے نقصان 30 ارب ڈالرز کے نقصان میں شامل نہیں، خان صاحب کے دور میں دوست ممالک سے تعلقات کو نقصان پہنچا تاہم اب حالات بہتر ہو رہے ہیں اور جوممالک ہاتھ ملانے کو اور فون کالز کرنے کو تیارنہیں تھے اب وہ بھی تیار ہیں۔جمعرات کو پی پی پی چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں وزیراعلی سندھ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم سیلاب کی آفت سے گزر رہے ہیں، سندھ کے علاقوں سے 50 فیصد سیلابی پانی نکالا جاچکا ہے تاہم ابھی تک بلوچستان کے پہاڑوں سے پانی سندھ میں داخل ہو رہا ہے، سڑکوں کے دونوں طرف سمندر کا سا سماں ہے، یہ سیلاب دریا سے نہیں بلکہ آسمان سے نیچے آیا ہے، قیامت سے پہلے قیامت کا منظر ہے، سیاست کیلیے بہت وقت ہے اسوقت قدرتی آفت پر کام کرنے دیں، یہ وقت الیکشن کے بارے میں سوچنے کا نہیں، صورتحال کا تقاضہ ہے کہ الیکشن کو مزید آگے کیا جائے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ کورونا میں معیشت پر جو فرق پڑا اس سے زیادہ سیلاب کی وجہ سے پڑا ہے، ملک میں 33 ملین لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے، 4 ملین ایکڑ زرعی زمین تباہ ہوگئی، اندازے کے مطابق سیلاب کے باعث 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، متاثرین میں بیماریاں پھیل رہی ہیں، اب تک 3.8 ملین شہریوں کو طبی امداد دی ہے مزید ضرورت ہے، متاثرین کی تعداد اور مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ جتنا کریں کم ہے، میں ہر ملک سے رابطہ کر رہا ہوں اور بہت مدد بھی مل رہی ہے۔انہوںنے کہا کہ کراچی کے علاوہ پورا صوبہ سیلاب سے متاثر ہے، دوسرے صوبے میں شاید کم متاثرین ہیں تو وہ سمجھتے ہیں مسئلہ ختم ہوگیا، لیکن سندھ میں ابھی تک 50 فیصد رقبے پر پانی کھڑا ہے، سندھ میں جب تک مکمل پانی نہیں نکل جاتا تب تک اصل تباہی اور نقصانات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے، ہم اس قدرتی آفت کو اس انداز میں لینا چاہیے کہ جس نوعیت کی یہ تباہی ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ دو پاکستان ہوں، یہ نہیں ہوسکتا کہ جو صوبہ ڈوبا ہوا ہے وہ ڈوبا رہے اور باقی میں جلسے جلوس ہوتے رہیں، ایک تہائی پاکستان ڈوبا ہوا ہے، حیران ہوں اسلام آباد کی طرف جائیں تو وہ الگ ہی ملک لگتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں برطانیہ جتنی زمین کا حصہ زیرِ آب ہے۔