فرض کریں آڈیو درست بھی ہے تو اصل کلپ کہاں کس کے پاس ہے؟اسلام آباد ہائیکورٹ

0
196

اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کیلئے دائر درخواست کی سماعت میں ریمارکس دئیے ہیںکہ فرض کریں آڈیو درست بھی ہے تو اصل کلپ کہاں کس کے پاس ہے؟ اور ایسی تحقیقات سے کل کوئی بھی کلپ لا کر کہے گا تحقیقات کریں۔پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی مبینہ آڈیوٹیپ کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کی درخواست پر سماعت سماعت ہوئی۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہ درخواست صدرسندھ ہائیکورٹ بارصلاح الدین احمد اورجوڈیشل کمیشن کے ممبر سید حیدرامام رضوی نے دائر کی ہے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ یہ بتا دیں کہ یہ پٹیشن قابل سماعت کیسے ہے؟ کس کے خلاف رٹ دائر کی گئی؟ آپ کی درخواست حاضرسروس چیف جسٹس کے آڈیوکلپ سے متعلق ہے؟۔عدالتی استفسار پر درخواست گزار نے کہا کہ درخواست موجودہ چیف جسٹس نہیں بلکہ سابق چیف جسٹس پاکستان کے آڈیو کلپ سے متعلق ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ کو بڑے چیلنجزکا سامنا کرنا پڑا اور عدلیہ کی آزادی کے لیے بارنے کردارادا کیا، ہم ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا کسی ریگولیشن کے بغیر ہے، اس پر درخواست گزار نے کہا کہ یہی بات تکلیف دہ ہے کہ سوشل میڈیا پریہ چیز وائرل ہوئی اوراس پرڈسکشن بھی ہورہی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ روزکچھ نہ کچھ چل رہا ہوتا ہے،آپ کس کس بات کی انکوائری کرائیں گے؟ ہم پہلے اٹارنی جنرل کو پری ایڈمشن نوٹس جاری کریں گے اور اس درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بات کریں گے، عدالت نے صرف قانون کے مطابق حقائق کو دیکھنا ہے، جوڈیشل ایکٹوزم میں نہیں جانا، عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ کوئی فلڈ گیٹ نہیں کھل جائے۔درخواست گزار صلاح الدین احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاکستان بار کونسل نے قرار داد منظور کی لہٰذا عدالت مناسب سمجھے تو انہیں بھی نوٹس کردے۔اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے عدالت آپ کا احترام کرتی ہے، آپ کچھ آڈیو کلپس سے رنجیدہ ہیں، چیف جسٹس پاکستان کی آڈیو ٹیپس ریکارڈ کرنے کی صلاحیت کس کے پاس ہے؟ کیا انہوں نے یہ ریلیز کی یا کسی امریکا میں بیٹھے ہوئے آدمی نے؟ مبینہ آڈیو ٹیپ ایک زیر التوا اپیلوں والے کیس سے متعلق ہے، جن کے کیسز سے متعلق ٹیپ ہے انہوں نے معاملہ عدالت لانے میں دلچسپی نہیں دکھائی