سلامتی کونسل افغان عبوری حکومت سے ٹی ٹی پی سے تعلقات منقطع کرنے پر زور دے،منیراکرم

0
61

اقوام متحدہ(این این آئی)پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان عبوری حکومت سے ٹی ٹی پی) ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنے کے پاکستان کے مطالبے کی حمایت کرے جو پاکستان کے فوجی اور سویلین اہداف پر حملے کے لیے مسلسل ذمہ دار ہے۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم 15رکنی سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورتحال پر بحث کے دوران خبردار کیاکہ القاعدہ اور کچھ ریاستی سرپرستوں کی حمایت یافتہ ٹی ٹی پی جلد ہی عالمی دہشت گردی کے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ افغان عبوری حکومت کی ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں پر قابو پانے میں ناکامی اس کے اپنے علاقے پر مکمل کنٹرول کے اس دعوے کے برعکس ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری میں شناخت کی خواہاں ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ ٹی ٹی پی نے جدید فوجی سازوسامان اور ہتھیار کیسے حاصل کئے اور ٹی ٹی پی کی مالی اعانت کے ذرائع کی نشاندہی کی جائے، جو اس کے 50ہزار جنگجوں اور ان کے زیر کفالت افراد اور اس کی دہشت گرد کارروائیوں کیلئے معاونت کر رہے ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ سلامتی کونسل پاکستان کے اس مطالبے کی حمایت کرے گی کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی سے اپنے تعلقات ختم کرے اور ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ تنظیموں کو پاکستان یا دوسرے ہمسایہ ممالک کے خلاف سرحد پار حملے کرنے سے روکا جائے۔پاکستانی مندوب نے کہاکہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیمیں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں اس لئے افغان عبوری حکومت کے ساتھ روابط کیلئے کسی بھی مستقبل کے روڈ میپ میں انسداد دہشت گردی سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہئے، اس کیساتھ ساتھ عالمی برادری کو غیر مشروط انسانی امداد کی فراہمی کے ذریعے لاکھوں بے سہارا افغان شہریوں کی مدد کرنی چاہئے نیز افغانستان کی معیشت کی مدد کیلئے بین الاقوامی برادری کو بینکنگ سسٹم کی بحالی میں مدد کرنی چاہئے اور ملک کے مرکزی بینک کے منجمد اثاثے واگزار کرنے میں سہولت فراہم کرنی چاہئے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ اس سلسلے میں افغان حکومت کو اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہئے، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے شمولیت کو فروغ دینا اور سب سے بڑھ کر افغانستان میں اور وہاں سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے افغان عبوری حکومت اور بین الاقوامی برادری کے باہمی اقدامات کے ساتھ ایک حقیقت پسندانہ روڈ میپ کا مطالبہ کیا، جس سے ملک کے بین الاقوامی برادری کا حصہ بننے کی راہ ہموار ہو۔پاکستانی مندوب نے افغانستان کی صورت حال پر سیکرٹری جنرل کی رپورٹ پر کچھ اعتراضات بھی پیش کئے جن میں پاکستان میں تحفظ کے نامناسب ماحول کا دعوی بھی شامل ہے۔اس حوالے سے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان 40سال سے زائد عرصے سے تقریباً 50لاکھ افغان مہاجرین کو عالمی برادری کی بہت کم مدد کے ساتھ بڑی اقتصادی، سماجی اور سلامتی کی قیمت پر میزبانی کر رہا ہے۔