سپریم کورٹ نے 63 اے سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دیدیا، نظرثانی اپیلیں متفقہ طور پر منظور

0
23

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 63 اے کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے نظرثانی کی اپیلیں متفقہ طور پر منظور کرلیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اپیل منظور کی جاتی ہے، تفصیلی فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔ جمعرات کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے تشریح نظر ثانی کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس امین الدین ،جسٹس جمال خان مندو خیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم بینچ میں شامل تھے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کی اپنے مؤکل سے ملاقات ہوگئی جس پر انہوں نے جواب دیا جی بالکل گزشتہ روز ملاقات ہوئی لیکن ملاقات علیحدگی میں نہیں تھی، جیل حکام بھی موجود رہے۔بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان عدالت سے خود مخاطب ہونا چاہتے ہیں، بانی پی ٹی آئی وڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں گذارشات رکھنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے انہیں ہدایت دی کہ اچھا آگے چلیں، دلائل شروع کریں۔علی ظفر نے کہا کہ نہیں پہلے عمران خان عدالت میں گذارشات رکھ لیں، پھر میں دلائل دوں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ سینئر وکیل ہے، آپ کو معلوم ہے عدالتی کارروائی کیسے چلتی ہے۔علی ظفر نے جواب دیا کہ میرے مؤکل کو بینچ پر کچھ اعتراضات ہیں، عمران خان کی وڈیو لنک پر پیشی کی اجازت نہیں دیتے تو انہوں نے کچھ باتیں عدالت کے سامنے رکھنے کا کہا ہے، میں نے اپنے مؤکل سے ہی ہدایات لینی ہیں، ہدایت کے مطابق چلنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ صرف اپنے مؤکل کے وکیل نہیں، آفیسر آف دا کورٹ بھی ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم بھی وکیل رہ چکے ہیں، اپنے مؤکل کی ہر بات نہیں مانتے تھے، جو قانون کے مطابق ہوتا تھا وہی مانتے تھے۔علی ظفر نے کہا کہ اگر عمران خان کو اجازت نہیں دیں گے تو پیش نہیں ہوں گے، حکومت کچھ ترامیم لانا چاہتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سیاسی گفتگو کررہے تاکہ کل سرخی لگے جس پر علی ظفر نے کہا کہ آج بھی اخبار کی ایک سرخی ہے کہ آئینی ترمیم 25 اکتوبر سے قبل لازمی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس بات کا معلوم نہیں۔علی ظفر نے کہا کہ حکومت آئینی ترمیم لارہی ہے اور تاثر ہے عدالت ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دیگی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس بات پر آپ پر توہین عدالت لگا سکتے ہیں، کل آپ نے ایک طریقہ اپنایا، آج دوسرا طریقہ اپنا رہے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں، آپ ہماری عزت کریں، ہارس ٹریڈنگ کا کہہ کر بہت بھاری بیان دے رہے ہیں، ہارس ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے؟ آپ کو ہم بتائیں تو آپ کو شرمندگی ہوگی۔علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ ہارس ٹریڈنگ کو روکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں کا مذاق بنانا بند کریں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہا عدالت نے 63 اے پر اپنی رائے دی تھی کوئی فیصلہ نہیں۔بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے سماعت کا بائیکاٹ کردیا، انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا کہنا ہے بینچ کی تشکیل درست نہیں، حصہ نہیں بنیں گے۔علی ظفر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا کہ آپ اگر کیس کا فیصلہ دیتے ہیں تو مفادات کا ٹکراؤ ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو کچھ بول رہے ہیں اس کو سنیں گے اور نہ ہی ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا ہم آپ کو عدالتی معاون مقرر کردیں، آپ کو اعتراض تو نہیں جس پر علی ظفر نے کہا کہ عدالتی حکم پر کوئی اعتراض نہیں جس کے بعد عدالت نے علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کردیا۔سپریم کورٹ بار اور پیپلزپارٹی نے علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کرنے کی تجویز سے اتفاق کیا، چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمہ کیا کہ آپ کے دلائل سے مستفید ہونا چاہتے تھے۔علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کہتے ہیں بینچ قانونی نہیں، اس لیے آگے بڑھنے کا فائدہ نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بار بار عمران خان کا نام کیوں لے رہے ہیں، نام لیے بغیر آگے بات کریں۔جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا اگر صدارتی ریفرنس پر فیصلہ نہیں رائے ہے، تو اس پر عملدرآمد کیسے ہو رہا ہے، کیا صدر نے کہا تھا یہ رائے آگئی ہے، اب ایک حکومت کو گرا دو؟چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ کو یاد ہے حاصل بزنجو نے ایک سینیٹ الیکشن پر کیا کہا تھا، سینیٹ جیسے ادارے میں الیکشن کے دوران کیمرے لگائے گئے، علی ظفر صاحب آپ کیوں ایک فیصلے سے گھبرا رہے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ دلائل دیں شاید ہم یہ نظر ثانی درخواست مسترد بھی کر سکتے ہیں جس پر علی ظفر نے بطور عدالتی معاون دلائل کا آغاز کردیا۔علی ظفر نے کہا کہ 63 اے کے حوالے سے صدر نے ایک رائے مانگی تھی، اس رائے کے خلاف نظر ثانی دائر نہیں ہو سکتی، صرف صدر پاکستان ہی اگر مزید وضاحت درکار ہوتی تو رجوع کر سکتے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک درخواست آپ نے بھی اس کیس میں دائر کی تھی جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ ہم نے فلور کراسنگ پر تاحیات نااہلی مانگی تھی، اس پر عدالت نے کہا آپ اس پر پارلیمان میں قانون سازی کر سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا 63 اے کا فیصلہ دینے والے اکثریتی ججز نے رائے کا لفظ لکھا یا فیصلے کا لفظ استعمال کیا؟ جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ یہ تو اس عدالت نے طے کرنا ہے کہ وہ رائے تھے یا فیصلہ، چیف جسٹس نے کہا کہ مطلب آپ اس حد تک نظر ثانی کی حمایت کرتے ہیں کہ لفظ فیصلے کی جگہ رائے لکھا جائے۔جسٹس جمال مندو خیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں اور جسٹس میاں خیل پہلے والے بینچ کا بھی حصہ تھے، ہم دونوں ججز پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا گیا، علی ظفر نے جواب دیا کہ اعتراض کسی کی ذات پر نہیں بلکہ بینچ کی تشکیل پر ہے۔علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ بار کی اصل درخواست تحریک عدم اعتماد میں ووٹنگ سے متعلق تھی، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس اور آئینی درخواستوں کو غلط طور پر ایک ساتھ جوڑا، عدالت نے آئینی درخواستیں یہ کہہ کر نمٹا دیں کہ ریفرنس پر رائے دے چکے ہیں، نظر ثانی کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے