توشہ خانہ ٹو کیس، ایف آئی اے نے بشریٰ بی بی کی درخواست ضمانت کی مخالفت کردی

0
59

اسلام آباد (این این آئی)توشہ خانہ ٹو کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کی درخواست ضمانت کی مخالفت کردی۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بشری بی بی کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی۔دوران سماعت ایف آئی اے پراسیکوٹر ذوالفقار عباس نقوی، ایف آئی اے کے وکیل عمیر مجید ملک اور ذوالفقار عباس نقوی عدالت میں پیش ہوئے جب کہ بشری بی بی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر بھی پیش ہوئے۔سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ بشریٰ بی بی کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئے 12 دن گزر چکے ہیں جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ میں 9 اکتوبر کو عدالت آیا تو شدید بخار تھا اور مجھے ریکور کرنے میں لمبا وقت لگا۔بشریٰ بی بی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ کیس ہے کہ قیمت کا تعین کرنے والے پرائیویٹ شخص سے قیمت کم لگوائی گئی، قیمت کا تعین کرنے والا صہیب عباسی اب وعدہ معاف گواہ بن چکا ہے۔سلمان صفدر نے کہا کہ پھر اس کے بعد کسٹمز کے افسران نے قیمت کا تعین کیا، یہ سب لوگ گواہ ہیں کسی کو ملزم نہیں بنایا گیا، کابینہ ڈویژن سے کسی شخص کو ملزم نہیں بنایا گیا، کابینہ ڈویژن سے کسی کو شاملِ تفتیش تک نہیں کیا گیا۔بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ پراسیکیوشن کا کیس ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کا کوئی براہ راست رابطہ نہیں تھا، پراسیکیوشن کے اپنے مطابق یہ تمام کام انعام اللہ شاہ کرتا ہے لیکن وہ ملزم نہیں، صہیب عباسی جو درحقیقت قومی خزانے کا نقصان پہنچا رہا ہے وہ وعدہ معاف گواہ ہے۔بشریٰ بی بی کے وکیل نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، کوئی عدالتی نظیر موجود نہیں، عمران خان کا بازو مروڑنے کیلئے بشریٰ بی بی کو قید رکھا گیا ہے، بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، وہ گھریلو خاتون ہیں، وہ 264 دن سے جیل میں قید ہیں، اس کیس میں 13 جولائی 2024 سے گرفتار ہیں۔انہوں نے عدالت بتایا کہ بشری بی بی پبلک آفس ہولڈر بھی نہیں ہیں، 3 سال 3 ماہ کی تاخیر سے یہ مقدمہ بنایا گیا، 31 جنوری 2024 کو نیب کے دوسرے ریفرنس میں بشری بی بی کو سزا دی گئی، 3 سال میں گرفتار کیا نہ ہی بشری بی بی کیخلاف کوئی کریمنل کیس بنایا گیا۔جسٹس حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ ایگزیکٹو کا فیصلہ تھا کہ 50 فیصد رقم دے کر تحفہ لے جائیں، جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ پروسیجر پر بھی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔