قائداعظم نے 1944ء میں جموںوکشمیر کے اپنے دورے کے دوران چوہدری غلام عباس کومعتبرلیڈر قرار دیا تھا،راجہ فاروق حیدر

0
33

مظفرآباد (این این آئی)آزاد جموںوکشمیر کے سابق وزیراعظم سابق صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر اور مرکزی نائب صدر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہاہے کہ قائد ملت رئیس الاحرار قائد کشمیر چوہدری غلام عباس مرحوم کی قومی خدمت اور سیاسی ، فکری اور نظریاتی سیاست اور اصولی بے باک اور بے لاک شخصیت پر بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناب کی عظیم شخصیت ، سیاسی و جماعتی جدوجہد آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی جدوجہد کے گہرے اثرات تھے ۔ قائد ملت رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس مرحوم کی حالیہ برسی کے موقع پر اپنے تاثراتی پیغام میں انہوں نے کہا کہ چوہدری صاحب کا آل انڈیا مسلم لیگ کی 1912ء کی نشاط ثانیہ کے دور سے ہی حضرت قائداعظم سے قریبی رابطہ تھا اور صوبہ جموںکے رہنے والے کی حیثیت سے ان کا علاقہ پنجاب سے قریب تھا ۔ اس لیئے انہوں نے ابتدائی دور سے ہی ان کے حضرت قائداعظم سے سیاسی ، نظریاتی اور جماعتی امور کے سلسلے میں رابطہ ہونے کے باعث ان کو ان کی راہنمائی حاصل رہی ہوئی ۔ انہوں نے لاہور سے تعلیم حاصل کی تھی ۔ اس طرح وہ مسلم لیگ کے نشاط ثانیہ کے دور سے ہی مسلم لیگ اور حضرت قائداعظم سے متاثر تھے ۔ انہوں نے کہا کہ 1929ء میں جموںمیں توہین قرآن کا واقع ہوا جس کے ردعمل کے طور پر 13جولائی 1931ء میںکا سرینگر میں شہدائے کشمیر کا واقعہ رونما ہوا اور ان واقعات کے بعد صوبہ جموںوکشمیر اور وادی کشمیر کے مسلمان زعماء مذہبی سکالرز ،علماء کرام عوامی ، سماجی اور فلاحی تنظیموں خاص کر چوہدری غلام عباس کی سرپرستی میں کام کرنے والی ینگ مسلم منز ایسو سی ایشن کی سماجی تنظیم کے لوگ چوہدری غلام عباس اور شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں متحدہوئے اور انہوں نے اکتوبر 1932ء میں ریاستی عوام کی پہلی نمائندہ تنظیم آل جموںوکشمیر مسلم کانفرنس قائم کی اورشیخ محمد عبداللہ کو اس کا پہلا صدر اور چوہدری غلام عباس کو اس کا پہلاسیکرٹری جنرل چنا اور اس طرح صوبہ جموں اور وادی کے قائدین خاص کر مسلمان زعماء کارکنان اور عوام کے درمیان پہلے آل جموںوکشمیر مسلم کانفرنس اور پھر 1934ء میں پہلی متحدہ کشمیر اسمبلی “پرجاسبھا “کے پلیٹ فارم سے نہ صرف قریبی رابطہ قائم ہوا بلکہ انہوں اپنے مذہبی ،اسلامی نظریاتی اور سیاسی حقوق کے تحفظ اور مقاصد کے حصول کیلئے اپنے ایک متفقہ ومتحدہ سیاسی اور جمہوری جدوجہد کا فعال اور موثر خطوط پر آغاز کیا ۔ انہوں نے کہا کہ پھر جب مسلم کانفرنس کے صدر شیخ محمد عبداللہ نے اپنے ہمنوا چند ساتھیوں کے ہمراہ گانگریسی لیڈروں اور مہا راجہ ہر ی سنگھ کے سازشی عزائم اور کوششوں کا شکار ہو کر اپنی جماعت مسلم کانفرنس کو پہلے 1937ء اور پھر 1938ء کے آواخر میں اپنی ایک نئی جماعت نیشنل کانفرنس میں مدغم کر دینے کا ڈھو ل ڈالا دیا اس دور میں قائد ملت چوہدری غلام عباس بھی ان اس کے ساتھ چلے گئے ۔ لیکن جب دو سال بعد مسلم کانفرنس کا 1941ء میں احیاء کیا گیا تو چوہدری غلام عباس شیخ محمد عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کو چھوڑ کرواپس اپنے پہلی جماعت مسلم کانفرنس میں آگے ۔ مسلم کانفرنس کے احیاء میں سابق صدر اور وزیراعظم آزاد کشمیر سردار سکندر حیات خان کے والد گرامی غازی کشمیر سردار فتح محمد خان کریلوی صاحب مرحوم ان مسلم کانفرنس اراکین میں سرفہرست تھے جو نیشنل کانفرنس میں نہیں گئے اور انہوں نے چوہدری غلام عباس اور ان کے نیشنل کانفرنس میں جانے والے ساتھیوں سے شدید اختلاف کرتے ہوئے چوہدری صاحب کی مسلم کانفرنس میں واپسی ، اس کے احیاء اور چوہدری صاحب کو اس کی سربراہی کرنے کیلئے آمادہ کرنے کی جرات مندانہ جدوجہد کی تھی۔سابق وزیراعظم اور سابق صدر مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے چوہدری غلام عباس کی برسی کے موقع پر اپنے پیغام میں مزید کہا کہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم نے 1944ء میں جموںوکشمیر کے اپنے دورے کے دوران بھی اپنے شیخ محمد عبداللہ کے مقابلے میں چوہدری غلام عباس کی قیادت پر اعتمادکرتے ہوئے ان کو ہی کشمیریوں کا سب سے معتبر اور قابل اعتماد لیڈر قرار دیا تھا اور شیخ محمد عبداللہ اور ان کے دیگر نیشنل کانفرنسی لیڈروں اور کارکنوں کی طرف سے استقبال کے باوجود ان پر برملا اور اور دو ٹوک الفاظ میں یہ واضع کر دیا تھا کہ کانگریس والوں پر اعتمادنہیں کیا جا سکتا اور ان کا گانگریس لیڈروں کے بارے میں جو طویل اور تلخ تجریہ اور مشاہدہ ہے وہ ان کو نہیں ہے وقت آئے گاکہ وہ گانگریس کے طرز عمل سے پچھتائیں گے