نیویارک (این این آئی )اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان میں تین کروڑ سے زائد جنگ زدہ افراد کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔ ان جنگ زدہ شہریوں کی نصف سے زیادہ تعداد بچوں پر مشتمل ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یہ بات اقوام متحدہ کی طرف سے کہی گئی ۔اقوام متحدہ نے سوڈان کے ان جنگ زدہ لوگوں کے لیے 4.2 ارب ڈالر کی امداد کی اپیل کی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت سوڈان کی کل آبادی 30.4 ملین ہے۔ جبکہ اس میں سے پورے سوڈان میں 20.9 ملین لوگ جنگ سے متاثرہ ہو کر امداد کے حقدار ہیں۔اقوام متحدہ نے اس صورتحال کو غیر معمولی انسانی المیہ قرار دیا ہے۔دونوں طرف کے ہزاروں لوگ اس آپس کی جنگ میں مارے جا چکے ہیں۔ 80 لاکھ شہریوں کو ملک کے اندر ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ پر نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ جبکہ 27 لاکھ سوڈانی جنگ سے پہلے ہی نقل مکانی کر کے اپنے گھروں سے بیگھر تھے۔اس طرح سوڈان اندرونی طور پر نقل مکانی کی سب سے بڑی تعداد کا سامنا کرنے والا ملک بن چکا ہے اور بیگھر لوگوں کا یہ بڑا بحران سوڈان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔مزید یہ کہ 33 لاکھ سوڈانی شہریوں کو سوڈان کی سرحدوں سے باہر فرار ہونا پڑا ہے۔ جو کہ اس طرح جنگ سے پہلے کے ماحول کی آبادی کا چوتھا حصہ بیگھری اور نقل مکانی کا شکار ہے۔اقوام متحدہ نے سوڈان کے 5 مختلف علاقوں میں پہلے ہی قحط کا اعلان کر رکھا ہے۔ جبکہ اگلے ماہ مئی تک مذید 5 علاقوں کو قحط زدہ قرار دیے جانے کا خدشہ ہے۔ کیونکہ اس وقت تقریبا 81 لاکھ سوڈانی خانہ جنگی کی صورتحال میں بدترین بھوک اور افلاس کا سامنا کر رہے ہیں۔سوڈان کی حکومت کی وفادار فوج اس امر کی تردید کرتی ہے کہ سوڈان میں کسی قسم کے قحط کا خطرہ ہے۔ جبکہ بین الاقوامی امدادی ادارے اس امر کی شکایت کرتے ہیں کہ حکومت نے دفتری اور تکنیکی نوعیت کی ایسی رکاوٹیں پیدا کر رکھی ہیں جن کی وجہ سے ان علاقوں میں امدادی اداروں کا پہنچنا مشکل ہے۔دوسری جانب سوڈان کی فوج اور اس سے لڑنے والی ‘آر ایس ایف’ دونوں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ تاکہ ایک دوسرے کے حامی لوگوں کو بھوک سے مارا جا سکے۔اقوام متحدہ نے انسانی بنیادوں پر مشرقی افریقہ کے اس ملک کے لوگوں کے لیے ضروری فنڈز کا 1/4 حصہ اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم عام طور پر دنیا کے لوگ سوڈان کی اس جنگ کو بھولے ہوئے ہیں جو عام سوڈانی شہریوں کے لیے وسیع پیمانے پر ہولناکیوں کا باعث ہے۔ جبکہ دنیا کے زیادہ تر لوگوں کی توجہ یوکرین اور مشرق وسطی کے تنازعات کی طرف ہے اور یہ معاملہ زیادہ تر لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔