فوج کے سربراہ کی تقرری کے معاملے میں کسی کے دباؤ میں آ کر کوئی فیصلہ نہیں کریں گے،وزیر دفاع خواجہ آصف

0
220

اسلام آباد (این این آئی)پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ فوج کے سربراہ کی تقرری کے معاملے میں کسی کے دباؤ میں آ کر کوئی فیصلہ نہیں کریں گے،سابق وزیرِ اعظم نے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے جو متنازع بیان دیا ہے، اس پر انہیں کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جائیگی،آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر ادارے کا تقدس اور وقار بحال رکھنا ہمارے لیے مقدم ہے،جنرل باجوہ کی مدت میں توسیع پر بات کرنا قبل از وقت ہے،پاکستانی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ غیر ملکی میڈیا ”وائس آف امریکہ ”کو دیئے گئے انٹرویومیں خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان کے فوجی سربراہ کی تقرری سے متعلق متنازع بیان پر قانونی کارروائی سے قبل اس بیان کی تحقیق کی جائے گی البتہ خواجہ آصف نے یہ نہیں بتایا کہ عمران خان کے بیان کی تحقیقات کون کرے گا تاہم انہوں نے واضح کیا کہ عمران خان کو اس معاملے میں کوئی چھوٹ نہیں دی جائے گی۔خیال رہے کہ اتوار کو فیصل آباد میں جلسے سے خطاب میں عمران خان نے حکمران اتحاد کے رہنماؤں نواز شریف اور آصف زرداری پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انتخابات اس وجہ سے نہیں کرا رہے کیوں کہ نومبر میں نئے ا?رمی چیف کا تقرر ہونا ہے۔اْن کے بقول یہ دونوں اپنا پسندیدہ آرمی چیف لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔سابق وزیر اعظم کے اس بیان پر سیاسی اور عسکری حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا رہا اور فوج کے ترجمان نے بھی ایک بیان میں کہا کہ نازک وقت میں فوج کی اعلیٰ قیادت کو متنازع بنانے کی کوشش انتہائی افسوس ناک ہے۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ فوج میں عمران خان کے ‘انتہائی غیر ضروری بیان’ پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔نئے آرمی چیف کی تقرری سے متعلق جب خواجہ آصف سے سوال کیا گیا تو انہوںنے کہاکہ فوج کے نئے سربراہ کے تقرر میں ابھی تین ماہ باقی ہیں اور حکومت اس ضمن میں جلد بازی سے فیصلہ نہیں لے گی،نہ ہی کسی کے دباؤ میں آکر آرمی چیف کا تقرر کیا جائے گا۔اس سوال پر کہ تقرری میں تاخیر سے یہ معاملہ مزید متنازع نہیں ہو جائے گا؟ خواجہ آصف نے کہا کہ آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر ادارے کا تقدس اور وقار بحال رکھنا ہمارے لیے مقدم ہے۔خواجہ آصف نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ اگر کوئی شخص ادارے کا وقار مجروح کرنے کی کوشش کررہا ہے تو ہمیں اس کے دباؤ میں آکر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے، جو روایتی طور پر غلط ہو۔ اس لیے جلد بازی کی کوئی ایسی ضرورت نہیں ہے۔وزیرِ دفاع نے کہا کہ آپ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کوئی ایک واقعہ بتائیں کہ دو تین ماہ یا ایک ماہ پہلے کسی آرمی چیف کی تقرری کا اعلان ہوا ہو۔خواجہ آصف کے بقول وہ ماضی میں بھی بطور وزیر دفاع دو مرتبہ آرمی چیف کی تقرری کے عمل کا حصہ رہے ہیں، آرمی چیف کی سبک دوشی سے چند روز قبل ہی نئے سربراہ کے نام کا اعلان کیا جاتا ہے۔خیال رہے کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتیاں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے دورِ حکومت میں ہوئی تھیں اور خواجہ آصف دونوں مواقع پر وزیرِ دفاع تھے۔خواجہ آصف نے کہاکہ آرمی چیف کی تقرری کے عمل کو متنازع بنانا کسی صورت قوم اور ملک کی خدمت نہیں بلکہ وہ اسے دشمنی سمجھتے ہیں۔وزیر دفاع نے کہا کہ فوج کے سربراہ کی تقرری کا طریقہ کار آئین میں درج ہے جس کے تحت فوج کی جانب سیوزیرِ اعظم کے پاس چار یا پانچ سینئر جنرلز کے نام آتے ہیں جن میں سے وزیرِ اعظم اپنی صوابدید کے تحت ایک کی تعیناتی کرتے ہیں۔آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے سوال پر خواجہ آصف نے بتایاکہ اتحادی حکومت میں ہوتے ہوئے لازم ہوتا ہے کہ اہم فیصلوں میں مشاورت کی جائے،یقینی طور پر فوج کی جانب سے سامنے آنے والے ناموں کو اتحادی رہنماؤں کے سامنے بھی رکھا جائے گا۔انہوں نے واضح کیا کہ اس عمل میں حکومت اصولوں سے انحراف نہیں کرے گی اور پہلے سے وضع کردہ قواعد اور قانون کے مطابق فیصلہ لیا جائے گا۔اس سوال پر کہ کیا فوج سے نئے سربراہ کی تقرری کیلئے نام منگوا لیے گئے ہیں؟ اس پر خواجہ آصف نے دلچسپ انداز میں کہا کہ ابھی دریا دس کوس دور ہے تو شلوار پہلے اونچی کر لیں کہ بھیگ نہ جائے۔اس سوال پر کہ غیر معمولی حالات میں کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع دی جا سکتی ہے خواجہ آصف نے کہا کہ ملکی دفاع کے تناظر میں پاکستان کو پچھلے 20 برس سے غیر معمولی حالات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان غیر یقینی حالات میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی تقرریاں ہوتی رہی ہیں، انہوںنے کہاکہ اس وقت ملک میں سیاسی اور معاشی حالات سازگار نہیں لیکن دفاعی ادارے کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو قطعی طور پر غیر معمولی حالات نہیں ہیں