کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے کوئٹہ خود کش دھماکے کی ذمے داری قبول کرنا خطرناک ہے، وزیر داخلہ

0
234

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان نے کوئٹہ میں ہونے والے خود کش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے ملک میں حملوں کی ذمے داری قبول کرنا خطرناک ہے،بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں کو امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں،ہماری مسلح افواج دہشت گردی کی صورتحال سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں، ہم ہر طرح کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اگر کسی آپریشن کی ضرورت ہوئی تو پھر اسے بلا تاخیر کیا جائے گا،عمران خان کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان غیر آئینی ہے، اس طرح کے ادارے آئین اور جمہوری نظام کی توہین ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں تاہم اگر عمران خان اپنے اقدام میں کامیاب ہوتے ہیں تو ہم آئین کی منشا کے مطابق عمل کریں گے،پنجاب اورکے پی اسمبلی ٹوٹنے پربلوچستان اور سندھ میں تو الیکشن نہیں ہوگا، مرکز میں تو نگران حکومت نہیں ہوگی، گورنر راج اور عدم اعتماد آئینی طریقے ہیں اور یہ استعمال ہوسکتے ہیں۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ملک کی سیکیورٹی کی صورتحال سے متعلق اجلاس منعقد کیا گیا، اجلاس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے شرکت نہیں کی، انہیں ملک کی امن و امان کی صورتحال سے متعلق ہونے والے اجلاس میں آنا چاہیے تھا۔انہوںنے کہاکہ ٹی ٹی پی کی جانب سے ملک میں حملے کی ذمے داری قبول کرنا افسوسناک تشویشناک اور خطرناک ہے، پاکستان کی جانب سے افغانستان کو ہر طرح کی سہولیات ہیں، ان کی سرزمین کا ہمارے خلاف استعمال ہونا طالبان حکومت کیلئے بھی باعث تشویشناک ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال خطے کے امن کے لیے انتہائی خطرناک چیز ہے۔انہوںنے کہاکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی لہر کے حوالے قوم کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ یہ چیز قابو سے باہر ہونے نہیں جارہی، ایسی صورتحال نہیں ہے کہ جو سنبھالی نہ جا سکے، اس پر قابو پانے کے لیے وفاق کی جانب سے معاملات ہاتھ میں لینے سے قبل صوبائی حکومت اپنی ذمے داریاں موثر انداز سے پوری کرے۔انہوںنے کہاکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں کو امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، صوبائی حکومتوں کو وفاق کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتا ہوں، سیاسی اختلافات چلتے ہیں لیکن ملکی مفاد اور اس کی سلامتی سب سے مقدم ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری مسلح افواج دہشت گردی کی صورتحال سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں، ہم ہر طرح کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اگر کسی آپریشن کی ضرورت ہوئی تو پھر اسے بلا تاخیر کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ عسکری قیادت نے دو مرتبہ پارلیمنٹ کو ٹی ٹی پی کے حوالے سے بریفنگ دی تھی، پارلیمنٹ نے عسکری قیادت کو اختیار دیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے جو لوگ آئین کے تابع آکر پر امن طور پر معاشرے کا حصہ بننا چاہیں تو آپ ان کے ساتھ بات کرسکتے ہیں اور کچھ حد تک یہ بات ہوئی بھی ہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کسی ایک دھڑے کا نام نہیں ہے، ہر علاقے میں دو، دو چار، چار دھڑے ہیں، ایک دھڑے سے بات چیت کرتے ہیں، مذاکرات کرتے ہیں، وہ پر امن طور پر واپس آنا چاہتا ہے، صلح کرنا چاہتا ہے تو دوسرا دھڑا کارروائیوں میں لگ جاتا ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ صورتحال برقرار رہے گی، جو لوگ امن چاہتے ہیں، ان کو امن کا راستہ دیا جانا چاہیے، عسکری قیادت کی جانب سے پارلیمنٹ کو دی گئی بریفنگ کا بھی یہ ہی فیصلہ تھا، اس پر ہی عمل ہو رہا ہے، باقی روزانہ موثر آپریشن بھی ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ٹی ٹی پی سے کوئی باضابطہ مذاکرات نہیں ہوئے، یہ وہ مذاکرات ہیں جو حالت جنگ میں بھی ہوتے ہیں جس میں کچھ چیزیں وقتی طور پر طے ہوجاتی ہیں، افغانستان میں موجود مسلح افراد کی تعداد 5 سے 7 ہزار بتائی جاتی ہے اور ان کے بارے میں وہ ہی مؤقف ہے کہ آئین اور قانون کے تابع مسلح افراد کو بھی ملک میں واپس آنے کی اجازت ہونی چاہیے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان غیر آئینی ہے، اس طرح کے ادارے آئین اور جمہوری نظام کی توہین ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں تاہم اگر عمران خان اپنے اس اقدام میں کامیاب ہوتے ہیں تو ہم آئین کی منشا کے مطابق عمل کریں گے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں اگر الیکشن کا انعقاد 90 روز میں ممکن ہو ا تو انتخابات کرائے جائیں لیکن اگر کسی وجہ سے وہ تاخیر کا شکار ہوئے تو پھر عام انتخابات کے ساتھ بھی انتخابات کرائے جا سکتے ہیں