عالمی بینک کی 2023 میں شرح نمو سست رہنے کی پیش گوئی

0
243

نیویارک(این این آئی)عالمی بینک نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر شرح نمو سست رہنے کا خدشہ ہے، جس کی وجہ بلند مہنگائی، بڑھتی ہوئی شرح سود اور روس۔یوکرین جنگ ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق عالمی بینک نے رپورٹ گلوبل اکنامک پروسپیکٹس میں بتایا کہ عالمی شرح نمو سست رہے گی اور اس کی شرح رواں برس 1.7 فیصد رہنے کا امکان ہے، یہ جون میں تخمینہ لگائی گئی رفتار سے تقریبا نصف ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ تین عشروں کے قریب کم ترین شرح نمو ہے۔واشنگٹن میں قائم ترقیاتی قرض دہندہ نے بتایا کہ نازک معاشی صورت حال میں اگر مزید منفی پیش رفت ہوتی ہے تو عالمی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو جائے گی۔انہوںنے کہاکہ ان میں توقع سے زیادہ افراط زر، قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے کے لیے سود کی شرح میں اچانک اضافہ یا وبائی امراض کا دوبارہ جنم لینا شامل ہے۔عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ میلپاس نے رپورٹرز کو بتایا کہ مجھے تشویش ہے کہ معیشت میں سست روی طویل ہوسکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق امریکا میں 2023 کے دوران شرح نمو سست ہو کر 0.5 فیصد تک ہوسکتی ہے، جو پہلے کیے گئے اندازوں سے بہت کم ہے، اس کے علاوہ یورپ میں بھی نمو فلیٹ رہنے کی توقع ہے کیونکہ اسے توانائی کی سپلائی اور قیمتوں کے حوالے سے مسائل درپیش ہیں۔رپورٹ کے مطابق چین میں رواں برس 4.3 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو کہ پچھلی توقعات سے 0.9 پوائنٹس کم ہے، جس کی ایک وجہ کورونا کا پھیلا اور پراپرٹی سیکٹر کی کمزوری ہے۔ڈیوڈ میلپاس نے بتایا کہ غریب معیشتوں کے لیے خاص طور پر تباہ کن منظرنامہ ہے، جہاں غربت میں کمی پہلے ہی رک چکی ہے۔انہوںنے کہاکہ ابھرتے اور ترقی پذیر ممالک کو بھی قرضوں کے بوجھ اور کمزور سرمایہ کاری کی وجہ سے کم شرح نمو کا سامنا ہے۔ڈیوڈ میلپاس نے بتایا کہ عالمی بینک نے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کا عمل تیز کرنے پر زور دیا ہے، تاہم اس حوالے سے پیش رفت تعطل کا شکار ہے۔بینک کے فورکاسٹ یونٹ کے سربراہ ایہان کوس نے کہا کہ وسیع پیمانے پر سست روی اور کمزور شرح نمو سے اب تک کساد بازاری کی علامت نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ اگر عالمی سطح پر شرح سود بڑھ جاتی ہے تو عالمی بینک مستقبل قریب میں مالی بحران کے امکان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔انہوںنے کہاکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو مہنگائی برقرار رہے گی جس کی وجہ سے عالمی کساد بازاری ہو سکتی ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مالیاتی حالات سخت ہوتے ہیں تو قرضوں کے مزید بحران کا خدشہ ہے۔