یونان کشتی حادثہ،پاکستان کو 82 افراد کی لاشیں موصول ہوچکیں، اموات میں اضافے کا خدشہ ہے، رانا ثنا ء اللہ

0
117

اسلا م آباد(این این آئی)وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے یونان میں کشتی کے حادثے کے بارے میں اپ ڈیٹ فراہم کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ جاں بحق ہونے والے 82 پاکستانی افراد کی لاشیں مل چکی ہیں، ان کے نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں ، نادرا کے ذریعے شناخت کا جاری عمل جاری ہے،بغیر بزنس کس طرح ان ممالک نے ہزاروں کی تعداد میں ویزے دئیے،عدالت عظمی میں ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں،عدالت کا یہ اختیار نہیں کہ وہ قانون کے اوپر بیٹھے،نامزد چیف جسٹس نے کہا یہ بینچ غیر قانونی ہے مگر بینچ پھر بھی بضد ہے اور فیصلے کرنے کو تیار ہے، سینئر ترین جج نے بینچ کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے، اندیشہ ہے اس بینچ کا فیصلہ بھی 14 مئی کے الیکشن کے فیصلے سے دوچار نہ ہو۔جمعہ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ اتنا نمبر شاید کسی حادثے میں بھی نہ ہو، جو اندازہ کیا جارہا ہے، اللہ کرے کہ باقی لوگ مل جائیں لیکن اموات بہت زیادہ ہوسکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ابھی تک 82 پاکستانی شہریوں کی لاشیں مل چکی ہیں، ان کے نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں اور فرانزک لیبارٹری اور نادرا کے ذریعے سے ان کی شناخت کی کوشش کی جارہی ہے۔رانا ثنا ء اللہ نے کہا کہ ابھی تک پاکستان میں 281 فیملیز نے رابطہ کرکے بتایا ہے کہ ان کے پیارے اس حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں، اس سلسلے میں باقاعدہ ڈیسک قائم کر دیے گئے ہیں، تمام فیمیلز کے ساتھ رابطہ قائم کیا جاچکا ہے، ان کے ڈی این ایز حاصل کر لیے گئے ہیں، بھرپور کوشش ہور ہی ہے کہ جیسے جیسے شناخت کا عمل مکمل ہو تو ان افراد کے جسد خاکی کو لایا جاسکے۔انہوںنے کہاکہ اب تک 193 کے قریب ڈی این اے کے نمونے حاصل کرچکے ہیں، اس سلسلے میں اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹی وزیر اعظم نے مقرر کی ہے، ایک گریڈ 22 کے افسر اس کے سربراہ ہیں، وہ کمیٹی تین ایریاز میں کام کررہی ہے، ایک تو جو لوگ انسانی اسمگلنگ کے اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے، اور اس بارے میں جو قانون موجود ہے، کیونکہ گزشتہ 5 برس کا جو ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے، اس میں شاذ و نادر ہی کسی کو سزا ہوئی ہے۔وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ مقدمات اگر درج بھی ہوئے ہیں تو لوگ بعد میں رہا ہوگئے، متاثرین صلح کرکے بیان جاری کردیتے ہیں، جس کی بنیاد پر سزا کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔انہوںنے کہاکہ ایک تو قانون میں ترامیم کی تجویز دی جارہی ہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ کس طرح سے اس مکروہ دھندے میں ملوث مافیاز ہیں، ان کو سزا دی جاسکے۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ دوسرا یہ ہے کہ جتنے بھی لوگ گئے ہیں، ان میں سے 99 فیصد لوگ قانونی طریقے سے گئے ہیں (یعنی یہ تین روٹس ہیں، مصر، لیبیا اور یو اے ای)، پاکستان سے جب یہ گئے ہیں، تو یہ قانونی ویزے سے گئے ہیں، وہاں سے جا کر یہ غیر قانونی ہو جاتے ہیں، وہاں سے اس طرح کے راستوں سے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ ایک لڑکا جس کی عمر 18، 20 سال ہے اور اس کا کوئی بزنس بھی نہیں ہے، اور کوئی معاملہ بھی نہیں ہے تو کس طرح سے ہزاروں کی تعداد میں ان ممالک سے ویزے دیے گئے، اور وہ گروپس کی شکل میں چلے گئے، ہم ان ممالک سے بھی یہ رابطہ اٹھا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں بھی کوئی قدغن ہونی چاہیے، کوئی اسٹینڈرڈ ہونا چاہیے اور اس کے مطابق ویزے جاری ہونے چاہئیں