ترک صدر نے نیتن یاہو کو ہٹلر کا ہم پلہ قرار دے دیا

0
206

انقرہ(این این آئی)ترکیہ کے صدر طیب ایردوآن نے ایک مرتبہ پھر غزہ پر اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں کے نتیجے میں ہونے والی بچوں اور عورتوں سمیت 21 ہزار ہلاکتوں کو اسرائیلی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا ہے اسرائیل کے وزیر اعظم اور جرمنی کے ہٹلر میں کوئی فرق نہیں ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق طیب ایردوآن نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کی مذمت جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے اور اس کی حمایت کرنے والے مغربی ممالک اس کے جنگی جرائم میں شریک ہیں۔ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہیے۔ترکیہ نیٹو کا رکن ملک ہے جو مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے دو ریاستی حل کا حامی ہے، تاہم طیب ایردوآن اسرائیل کے مقابل حماس کی حمایت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حماس کو سات اکتوبر کے حملے کے لیے اسرائیلی قبضے نے مجبور کر دیا تھا۔طیب ایر دوآن نے اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ‘ اسرائیل کے غزہ پر مسلسل جاری حملوں کی مثال نازیوں کے یہودیوں سے کیے جانے والے سلوک جیسی ہے اور نیتن یاہو ہٹلر سے مختلف نہیں ہے۔صدر طیب ایردو آن نے غزہ میں جاری جنگ کے تناظر میں کہا کہ ترکیہ اسرائیلی جنگ سے تنگ آئے اور ظلم وستم کا شکار بننے والے ماہرین تعلیم اور سائنسدانوں کو ترکیہ اپنے ہاں خوش آمدید کہے گا۔ ہٹلر اور نیتن یاہو کی مماثلت کے بارے میں ایردوآن نے مزید کہا کہ آپ میں اور ہٹلر میں کیا فرق ہے۔ نیتن یاہو جو کچھ فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے کیا یہ ہٹلر سے کم ہے، بالکل نہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ اس کے پاس ہٹلر سے زیادہ وسائل ہیں، اسے امریکہ اور مغربی ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔ امریکہ سے اسے ہر قسم کی حمایت اور مدد ملتی ہے۔ لیکن اس سہارے اور حمایت کی وجہ سے اس نے غزہ میں 20 ہزار سے زائد فلسطینی شہریوں کا قتل عام کیا اور اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔دوسری جانب نیتن یاہو نے بھی ترکیہ کے صدر کو جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ نیتن یاہو نے کہا ‘ ترکیہ کے صدر اسرائیل کو لیکچر دینے والے آخری فرد ہونے چاہییں۔ انہیں یاد ہونا چاہیے کہ وہ بھی کردوں کی نسل کشی کرتے رہے ہیں۔یاہو نے مزید کہا بطور حکمران تنقید کرنے والے صحافیوں کوقید کرنے کا ایک عالمی سطح کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اس ناطے طیب ایردوآن کو خود کو آخری آدمی کے طور پر رکھنا چاہیے جو اسرائیل پر تنقید کرے اور ہمیں اخلاق بتائے۔ ‘