ایرانی جوہری مسئلہ اور ملیشیائیں واشنگٹن میں ایک بار پھر زیربحث

0
116

تہران(این این آئی)مشرق وسطی میں جاری جنگ کے تناظرمیں امریکہ، یورپ اور اسرائیل کے ہاں ایرانی جوہری پروگرام اور ایران نوازملیشیائیں توجہ کا مرکز ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں اس وقت خطے میں فلیش پوائنٹ بنا ہوا ہے۔امریکی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے عرب ٹی وی سے بات کی اور خطے کوہاٹ زون قرار دیا۔گذشتہ برسوں کے دوران جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکی انتظامیہ نے کشیدگی کو روکنے اور استحکام برقرار رکھنے کی کوشش کی لیکن اب وہ ایرانی فائل پر زیادہ توجہ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔امریکی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ مشرقی بحیرہ روم کے علاقے میں بحری اور فضائی افواج کی تعیناتی معمول کے پروگرام کا حصہ ہے لیکن اگرضرورت ہو تو یہ افواج اپنی قیات کو مزید آپشن دے گی۔انہوں نے نشاندہی کی کہ امریکی بحریہ جسے WASP کے نام سے جانا جاتا ہے، میں متعدد جنگی جہاز شامل ہیں۔ یہ مشرقی بحیرہ روم میں تعینات ہوں گے اور F-35 لڑاکا طیارے سمیت بڑے دفاعی اور فضائیہ کی صلاحیتوں کو استعمال کرے گی۔امریکی حکومت کا کوئی اہلکار یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ان افواج کے کیا مقاصد ہیں؟۔ یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ وہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ چھڑنے کی صورت میں امریکیوں کی طرف سے مدد کے لیے تعینات کیے جا رہے ہیں۔ بعض امریکی حکام نے بار بار کہا کہ وہ ڈیٹرنس مشن انجام دیں گے۔ انہوں نے مشن یا مشن کی نوعیت کے حوالے سے مزید وضاحت نہیں کی۔امریکی افواج ایک ایسے وقت میں تعینات کی جا رہی ہیں جب شام اور عراق میں موجود ملیشیائیں جنگ کی صورت میں حزب اللہ کے ساتھ کھڑی ہونے کا اعلان کرچکی ہیں۔ امریکی حکام کا خیال ہے کہ مشرقی بحیرہ روم میں اضافی افواج کی موجودگی ایران اور اس کی ملیشیائوں کو کسی بھی ممکنہ کشیدگی سے روکنے میں مدد کریں گی۔لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران نے اپنے جوہری ہیڈ کوارٹر میں یورینیم افزودہ کرنے والی مشینیں نصب کی ہیں اور وہ 60 فیصد کی سطح پر یورینیم کی افزودگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔