اسلام آباد (این این آئی) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ انتہاء پسند ہندتوا سوچ کے زیراثر بھارت کے جنگی جنون اور جارحانہ پالیسیز نے عالمی وعلاقائی امن وسلامتی کے لئے خطرات لاحق کررکھے ہیں،عالمی برادری کو حقیقت کو محسوس کرنا ہوگا جنوبی ایشیاء میں کسی قسم کا فوجی تنازعہ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کردیگا جس سے عالمی تجارت اور سلامتی کو گزند پہنچنے کا احتمال ہو سکتا ہے،پاک بحریہ پاکستان کے ساحل اور علاقائی سمندروں میں سلامتی کو درپیش خطرات سے موثر انداز میں نمٹ رہی ہے جس پر فخر ہے ،سی پیک اور گوادر بندرگاہ کی ترقی گیم چینجر منصوبے ہیں جن سے پاکستان کی جیو اکنامک اہمیت مزید بڑھ گئی ہے،مینگرووز پر انحصار کرنے والی صنعت سالانہ 20 ملین ڈالر کے قریب ثمرآور ہوسکتی ہے۔پیر کو وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی بین الاقوامی میری ٹائم کانفرنس (آئی ایم سی 2021) سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کررہے تھے جس کا عنوان ”محفوظ اور پائیدار ماحول میں نیلے پانیوں سے معاشی ترقی۔ مغربی ہند کے بحری خطے کے لئے مشترک سوچ” تھا ۔ وزیرخارجہ نے کہاکہ میں پاک بحریہ کو مبارک دیتا ہوں کہ 2007 سے ہر دوسال کی ترتیب سے وہ ‘امن’ کے نام سے کثیرالملکی مشقوں کی مسلسل میزبانی کا اعزاز حاصل کررہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ مجھے یاد ہے کہ پاکستان بحریہ نے یہ کاوش بحرہند کے خطے میں امن و ہم آہنگی کے فروغ کے لئے شروع کی تھی، بحری جہازوں، طیاروں، خصوصی سپیشل آپریشن فورسز، میرین ٹیمز اور مبصرین کے ساتھ بڑی تعداد میں غیرملکی بحریہ اس میں شریک ہے،مجھے اس امر پر مسرت ہے کہ 2007 کے مقابلے میں ان بحری مشقوں میں حصہ لینے والے ممالک کی بحریہ کی تعداد 28 سے بڑھ کر اس سال 40 سے زائد تک پہنچ چکی ہے۔ ان مشقوں کا کامیاب انعقاد عالمی امن وسلامتی کے فروغ کے لئے پاکستان کے عہد اور کاوشوں کا مظہر ہے۔ انہوںنے کہاکہ میں بحریہ کے سربراہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے یہاں مدعو کیا اور ”محفوظ اور پائیدار ماحول میں نیلے پانیوں سے معاشی ترقی۔ مغربی ہند کے بحری خطے کے لئے مشترک سوچ” کے عنوان سے منعقدہ اس عالمی میری ٹائم کانفرنس 2021 میں اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ بلاشبہ یہ ابھرتا ہوا ایک انتہائی اہم پہلو ہے جس کی پاکستان کے لئے انتہائی زیادہ اہمیت ہے۔ انہوںنے کہاکہ نیلے پانیوں کی معیشت’ نسبتاً ایک نیا تصور ہے، یہ سمندروں اور بحیروں کی سماجی ومعاشی ترقی میں کارگر ہونے کی اہمیت سے روشناس کراتا ہے۔ یہ ایک وسیع تصور ہے جس میں کئی پہلو جمع ہیں، اس میں قابل تجدید توانائی، ماہی گیری، ساحلی سیاحت، فضلے کو ٹھکانے لگانے، بحری نقل و حمل، سمندری انجینئرنگ اور ماحولیاتی تغیر تک کے تمام شعبے سموئے ہوئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پائیدار بلیو اکانومی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے فائدے پر مبنی سماجی ومعاشی ثمرات کے حصول کے لئے کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ معاشی ماہرین کے مطابق عالمی بلیو اکانومی 24 ٹریلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی صلاحیت کی حامل ہے۔ مزید برآں اس کے اس خطے پر آنے والی دہائیوں میں بے پناہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ بحر ہند دنیا کا تیسرا سب سے بڑا آبی وجود ہے