نور مقدم قتل کیس ، ذاکر جعفر کی درخواست ضمانت مسترد ، سپریم کور ٹ نے والدہ کی ضمانت منظور کرلی

0
319

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر کی درخواست ضمانت مسترد اور والدہ عصمت آدم جی کی منظور کرلی۔پیر کو نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بظاہر ماں کے جرم میں شامل ہونے کے شواہد نہیں ہیں۔وکیل درخواست گزار خواجہ حارث نے درخواست ضمانت کے حق میں دلائل دیئے کہ ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی مقدمے میں نامزد نہیں تھے،مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے پولیس کو بیان کے بعد والدین کونامزد کیا گیا ہے۔درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ کال ریکارڈز کے مطابق عصمت جعفرنے مرکزی ملزم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ ملزم اور اس کے والدین کے کال ریکارڈز اور رابطے پردلائل دیں،وقوعہ کے روز درخواست گزاروں کی جانب سے ملزم کو کئی کالزکی گئیں۔جسٹس بندیال نے کہاکہ اس موقع پرضمانت کا فیصلہ کرنے سے مرکزی کیس متاثرہوسکتا ہے،عصمت جعفرکے اس واقعے میں کردارسے متعلق دلائل دیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ قتل کا وقت کیا تھا؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ استغاثہ کے مطابق شام6بجکر 35 سے ساڑھے 7 کے درمیان قتل ہوا،جبکہ ایف آئی آر میں قتل کا درج وقت رات 10 بجے کا ہے۔جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اس موقع پرضمانت دے کراستغاثہ کا پورا کیس فارغ نہیں کیا جاسکتا،وکیل درخواست گزارخواجہ حارث نے کہاکہ ملزمان پر صرف قتل چھپانے کا الزام ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ظاہر جعفر کی دماغی حالت کو ٹیسٹ کیا گیا ہے؟وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہملزم کی ذہنی حالت سے متعلق کوئی ٹیسٹ نہیں ہوا۔وکیل مدعی شاہ خاور نے کہا کہ ملزم کا صرف منشیات کا ٹیسٹ کروایا گیا ہے،ذہنی کیفیت جانچنے کیلیے کوئی معائنہ نہیں ہواجسٹس عمرعطا بندیال نے کہاکہ کیس میں منشیات کا ذکربھی ہے، کیا ملزم منشیات پر تھا؟جسٹس قاضی محمد امین نے کہاکہ ملزم انکار کرے تو ذہنی کیفیت نہیں دیکھی جاتی،ذہنی کیفیت کا سوال صرف اقرار جرم کی صورت میں اٹھتا ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ ممکن ہے فون پر والد قتل کا کہہ رہا ہو، یہ بھی ممکن ہے روک رہا ہو،وکیل خواجہ حارث نے اس پر کہاکہ ممکن تو یہ بھی ہے کہ بیٹا باپ کو سچ بتا ہی نہ رہا ہو۔جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ ٹرائل کی کیا صورتحال ہے؟ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہاکہ فرد جرم عائد ہوچکی، 8 ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت بھی ہے۔جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر ماں کے جرم میں شامل ہونے کے شواہد نہیں، وکیل خواجہ حارث نے بتا یا کہ ماں نے 2 ٹیلیفون کالز گارڈ کو کی تھیں