زیر التوا اپیلوں پر اس طرح رپورٹنگ نہیں ہوسکتی،پریولیج ڈاکومنٹ لیک ہونے پر نوٹری پبلک کیخلاف انکوائری ہوسکتی ہے، چیف جسٹس ہائی کورٹ

0
284

اسلام آباد (این این آئی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ کے خلاف الزامات سے متعلق بیانِ حلفی پر گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کی فردِ جرم عائد کرنے کی کارروائی 20 دسمبر تک مؤخر کرنے کی استدعا منظورکرلی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق کیس میں نے ریمارکس دیئے کہ زیر التوا اپیلوں پر اس طرح رپورٹنگ نہیں ہوسکتی،پریولیج ڈاکومنٹ لیک ہونے پر نوٹری پبلک کیخلاف انکوائری ہوسکتی ہے،لوگوں کو اعتماد نہ ہو تو ہم بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے کیس نہیں کرسکتے،ایسا تاثر نہیں دینا چاہیے جو بیان حلفی کی خبر میں دیا گیا ہے،کورٹ کے سامنے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدر آمد کا معاملہ چل رہا ہے۔ پیر کو ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق کیس کی سماعت کی، سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے ناصر زیدی، دی نیوز کے رپورٹر انصار عباسی اور ریما عمربطور عدالتی معاون ہائیکورٹ میں پیش ہوئیں جبکہ رانا شمیم کچھ تاخیر سے عدالت پہنچے۔سابق چیف جج رانا شمیم کی آمد سے قبل جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ رانا شمیم خود کہاں ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ رانا شمیم کواصل بیان حلفی جمع کرانے کا ایک اور موقع دیا گیا تھا، پتہ نہیں وہ آج اصل بیان حلفی جمع کرارہے ہیں یانہیں؟چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ ایک درخواست آئی ہے،وہ آپ نے دیکھی ہے؟اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ 9 دسمبر کو نواسے نے اصل بیان حلفی بھجوایا ہے، کوریئر کے ذریعے اس بیان حلفی بھجوایا گیا ہے، ڈاکومنٹ بھجوانے میں 3 دن لگنے چاہئیں۔سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے ناصر زیدی نے عدالت کو بتایا کہ انصارعباسی بہترین صحافی ہیں، حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرتے ہیں، بیان حلفی دینے والا اس کی تصدیق کررہا ہے تو وہ شائع ہونا چاہیے۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس میں کہا کہ اگر وہ ڈاکومنٹ خفیہ ہو تو کیا پھر بھی وہ بیان حلفی شائع ہونا چاہیے؟جو ہیڈ لائن شائع ہوئی اس پر غور کریں، زیر التوا اپیلوں پر اس طرح رپورٹنگ نہیں ہوسکتی،پریولیج ڈاکومنٹ لیک ہونے پر نوٹری پبلک کے خلاف انکوائری ہوسکتی ہے۔عدالت نے کہاکہ لوگوں کو اعتماد نہ ہو تو ہم بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے کیس نہیں کرسکتے،ایسا تاثر نہیں دینا چاہیے جو بیان حلفی کی خبر میں دیا گیا ہے،کورٹ کے سامنے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدر آمد کا معاملہ چل رہا ہے