وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 23-2022 کیلئے 95کھرب حجم کا بجٹ پیش کردیا

0
185

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال کیلئے2022-23کیلئے 95 کھرب حجم کا بجٹ پیش کردیا جس کے مطابق کل اخراجات کا تخمینہ 9ہزار 502 ارب روپے ہے،قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 3ہزار 144ارب روپے ،پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کیلئے 800ارب روپے ،ملکی دفاع کیلئے ایک ہزار 523ارب روپے ،سول انتظامیہ کے اخراجات کیلئے 550ارب روپے ،پنشن کی مد میں 530ارب روپے ،سبسڈیز کیلئے 699ارب روپے ،گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 242 ارب روپے ،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے 364ارب روپے ،ماحولیاتی تبدیلی کیلئے 10ارب روپے ،بجلی کے شعبے کی پیداوار اور ترسیل کی مد میں 73 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،ایک کروڑ طلبہ کو بے نظیر اسکالرشپ دی جائے گی،تعلیم کیلئے 109ارب روپے خرچ ہونگے ،تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس چھوٹ کی حد بارہ لاکھ روپے سالانہ کر دی گئی ہے ،40ہزار ماہانہ سے کم آمدن والوں کو ماہانہ 2ہزار روپے دئیے جائیں گے،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ ،1600سی سی اور اس سے زائد کی گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا،سولر پینل کی درآمدات پر صفر سیلز ٹیکس عائد ہو گا،200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینل کی خریداری پر بینکوں سے آسان اقساط پر قرضے دلائے جائیں گے،ٹریکٹرز، زرعی آلات، گندم، مکئی، کینولا، سورج مکھی اور چاول سمیت مختلف اجناس کے بیجوں کی سپلائی پر ٹیکس واپس لینے ،خیراتی ہسپتال کو درآمد/عطیات اور 50 یا اس سے زائد بستروں والے خیراتی/غیر منافع بخش ہسپتالوں کو بجلی سمیت مقامی سپلائیز پر مکمل چھوٹ دینے کی تجویز ہے،۔زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی ،سگریٹ پر ٹیکس 150 ارب سے 200 ارب روپے اکٹھا کرنے ،آئندہ مالی سال برآمدات کا تخمینہ 35 ارب ڈالر، برآمدات کا تخمینہ 31 ارب ڈالر کرنے ، مہنگائی کی شرح 11.5 فیصد کرنے کا ہدف مقرر،کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز کی غیر ملکی ادائیگیوں پر ایڈوانس ٹیکس ،نان فائلرز کیلئے ٹیکس کی شرح 100 سے 200 فیصد کرنے کی تجویز دے دی گئی ،یوتھ روزگار سکیم کے تحت 20 لاکھ سے زیادہ مواقع، آسان شرائط پر قرضوں فراہم کئے جائینگے ،ایکسپورٹرز کے تمام واجبات جو سٹیٹ بینک کے مطابق تقریباً 40 ارب کے ہیں،رواں ماہ ادا کئے جائیں گے ،کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کی پیٹرول کی حد کو 40 فیصد کم کیا جائیگا، لازمی دوروں کے علاوہ دوروں پر پابندی ہوگی،فلم کو صنعت کا درجہ دے دیا گیا ، ایک ارب کی سالانہ لاگت سے ‘بائڈنگ فلم فنانس فنڈ قائم ، فنکاروں کے لئے میدیکل انشورنس پالیسی شروع کی جائے گی،فلم، ڈراموں کیلئے مشینری، آلات اور سازو سامان کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی سے 5 سال کا استثنیٰ ،آبی وسائل کیلئے بڑے ڈیموں، دیامر بھاشا، مہمند، داوس، نئی گاج ڈیم اور کمانڈ ایریا پروجیکٹس کے کے لیے بجٹ میں سو ارب روپے ،انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں تربیت دینے، لیپ ٹاپ فراہم کرنے، آئی ٹی برآمدات کو فروغ دینے کے لئے 17 ارب روپے رکھے گئے،فائلرز کیلئے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح موجودہ ایک فیصد شرح سے بڑھا کر 2 فیصد ،نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کیلئے پراپرٹی کے خریداروں کے لیے ایڈوانس ٹیکس کی شرح بڑھا کر 5 فیصد کرنے اور تمام افراد بشمول کمپنیز اور اے او پیز جن کی سالانہ آمدن 300 ملین یا اس سے زائد ہو ان پر 2 فیصد ٹیکس ادا کرنے کی تجویز دی گئی ،30 سے زائد ایکٹو فارما سیوٹیکل انگیریڈینٹس کو کسٹم ڈیوٹی سے مکمل استثنیٰ دے دیا گیاجبکہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت کو گزشتہ پونے چار سال کی بری کارکردگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی ابتر معاشی صورتحال بہتر بنانے کا مشکل چیلنج درپیش ہے، گزشتہ حکومت کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے معاشی ترقی رک گئی، سماجی ڈھانچہ متاثر ہوا اور اس دوران معاشی بدانتظامی عروج پر رہی جس کی وجہ سے عام آدمی بری طرح متاثر ہوا اور روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی دیکھنے میں آئی اور ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی،شتہ پونے 4 سال کے دوران ایک ناتجربہ کار ٹیم نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا، ہر سال ایک نیا آدمی بجٹ پیش کرتا رہا اور ہر سال حکومت کی معاشی پالیسی بدل جاتی تھی جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی،اس وقت ہماری اولین ترجیح معاشی استحکام ہے،برآمدات وہیں کھڑی رہتی ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں نئی سوچ کو اپنانا ہوگا اور ایک قوم کے طور پر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا، ہمیں معیشت کو چلانے کیلئے کم آمدنی والے اور متوسط طبقے کو مراعات دینا ہوگی جس سے مقامی پیداوار بڑھے گی اور زراعت کو بھی ترقی ملے گی۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کااجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جس میں وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے بجٹ پیش کیا ۔وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس حکومت میں وفاق کی تمام اکائیوں کی نمائندگی ہے لہٰذا ملکی معیشت کے بارے میں کیے جانے والے فیصلوں کو قوم کی وسیع تر حمایت حاصل ہے