سینیٹ میںاپوزیشن کے احتجاج کے باوجود اسلام آباد میں پر امن اجتماع و امن عامہ بل کثرت رائے سے منظور

0
69

اسلام آباد(این این آئی)سینیٹ میں اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے شدید احتجاج کے دوران اسلام آباد میں پر امن اجتماع و امن عامہ بل 2024 کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت سینیٹ اجلاس کے دوران رپورٹ چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ فیصل سلیم نے پیش کی، سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ بل کو فوری منظوری کے لیے پیش کیا جائے۔سینیٹر علی ظفر نے بل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں ایک جلسہ ہونے جارہا ہے، اسے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم اس چیز کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، آپ جہاں چاہیں جلسہ کریں، ہم تو انہیں سہولت دے رہے ہیں، ہمارا اور کوئی مقصد نہیں، ہم چاہتے ہیں لاکھوں لوگوں کے حقوق پامال نہ ہوں۔اس پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ یہ رولز اس ہاؤس نے بنائے ہیں، جب سے یہ ہاؤس معرض وجود میں آیا تو رولز ریلکس ہوتے ہیں۔بعد ازاں قائد حزب اختلاف سینیٹ شبلی فراز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی اتھارٹی کا غلط استعمال کررہے ہیں، یہ قانون آپ کے گلے پڑے گا، جب کرکٹ ٹیمیں آتی ہیں، تب بھی شہر کو محصور کردیا جاتا ہے، اس بل پر آپ کی بدنیتی واضح ہوچکی ہے، حکومت بھی جلسہ کر لے، میں انہیں چیلنج کرتا ہوں، یہ قانون محض پی ٹی آئی کے جلسہ کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا گیا ہے، لا منسٹر دن دہاڑے کیسے ہماری آنکھوں میں دھول جھونک سکتے ہیں؟۔ انہوںنے کہاکہ منی بل یا ججز کی تعداد میں اضافے کا بل نجی ممبر نہیں پیش کر سکتا، کیسے ایوان کو استعمال کرتے ہوئے ججز کی تعداد میں اضافے کا نجی بل پیش ہوا، ججز کی تعداد میں اضافے کا بل صرف حکومت پیش کر سکتی ہے، انہیں ججز کی تعداد میں اضافہ کے بل پر قومی اسمبلی میں شرمندگی کا سامنا ہوا، سینیٹ سے یہ نجی بل پیش کرنا درست نہیں تھا۔اس موقع پر چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ جس دن یہ بل آیا تھا، اس دن بھی ہاؤس پر بحث ہوئی تھی۔اسی کے ساتھ سینیٹر عرفان صدیقی کی طرف سے پر امن اجتماع و امن عامہ بل 2024 کی تحریک پیش کردی گئی، جو ایوان نے کثرتِ رائے سے منظور کر لی۔بعد ازاں اسلام آباد میں امن اجتماع و امن عامہ بل 2024 پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا۔قبل ازیں سینیٹ اجلاس کے آغاز پر سینیٹر مسرور احسن نے دو روز قبل سینیٹ قائمہ کمیٹی میں سیف اللہ ابڑو اور شہادت اعوان کے درمیان ہونے والی تلخ کلامی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کسی معزز ممبر کی دوسرا ممبر بے عزتی کرے، اور اخبار کی زینت بنے، جس معزز رکن نے یہ کیا ہے میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔اس پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ کسی رکن کی ہاؤس میں کھڑے ہوکر مذمت کرنی چاہیے، وزیر قانون نے کہا کہ اس طرح کے معاملات پر چشم پوشی نہ کریں، ورنہ معاملات دور تک جائیں گے، میں بطور رکن ایوان اس کی بھر پور مذمت کرتا ہوں۔اس پر سینیٹر تحریک انصاف کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ اس معاملے کی تحقیقات کروائیں، اس ہاؤس کی کمیٹی بنائیں جو اس معاملے کی تحقیقات کرے، کمیٹی بنا کر تحقیقات کرائیں، اگر میں غلط ثابت ہوا، تو جا کر معافی مانگوں گا، اگر غلطی ثابت نہ ہوئی تو جن ارکان نے ہاؤس میں مذمت کی، وہ پھر معافی مانگیں گے۔اس پر سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ اس ہاؤس کا بڑا احترام ہے، قومی اسمبلی کے رکن یہاں بیٹھ کر رہنمائی لیتے تھے، اگر ہم معاملات کو بڑھائیں گے، تو آگے بڑھتے جائیں گے۔بعد ازاں پیپلز پارٹی کی سینیٹر قرة العین مری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے معزز رکن سے جو ہوا، اس کے بعد پیپلز پارٹی کا مؤقف نہ سننا مناسب نہیں۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ گزشتہ ماہ میں دو واقعات قومی اسمبلی میں بھی ہوئے، ہم نئی چیزیں کیوں کریں، یہ معاملہ چیئرمین سینیٹ کو بھجوا دیں، جو رول کہتا ہے