پاکستان سعودی عرب کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے پرعزم ہے’اسحاق ڈار

0
26

اسلام آباد(این این آئی )نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ پاک سعودی عرب اسٹریٹجک شراکت داری نئے دور میں داخل ہوگئی ہے، پاکستان سعودی عرب کیساتھ اپنے تاریخی تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان کی معیشت پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اقتصادی بحالی کے ایجنڈے کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے، پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول موجود ہے۔بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جلد دنیا کی 24ویں مضبوط معیشت بن کر ابھرے گا، سعودی عرب کوکان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں، پاکستان میں آئی ٹی کا شعبہ عالمی سرمایہ کاروں کو راغب کررہا ہے۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاک سعودی بزنس فورم میں دونوں ممالک نے تعاون بڑھانے کا عزم کیا، پاکستان سعودی عرب کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے پرعزم ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہے، ملک میں مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی آئی، بین الاقوامی سطح پربھی پاکستان کی معاشی بہتری کا اعتراف کیا جارہا ہے۔نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ زراعت، افزائش حیوانات کے شعبے سعودی سرمایہ کاری کے لیے کھلے ہیں، قابل تجدید توانائی کے منصوبے سعودی سرمایہ کاروں کے لیے کھلے ہیں،نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سعودی عرب نے زرِ مبادلہ کی مد میں قابل ذکر مدد کی ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان سعودی قیادت کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور سعودی عرب کی آزادی اور خود مختاری کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ سعودی وفد کا دورہ پاکستان باہمی شراکت داری کا عکاس ہے، پاکستان اور سعودی عرب ہمیشہ وقت پر ایک دوسرے کے کام آئے۔ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ جب ہم مدینہ منورہ سے واپس آئے تو مجھے شہزادہ سلمان کا دعوت نامہ ملا، کاروباری معاملات وہیں طے ہوئے۔وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ہم کان کنی، زراعت، آئی ٹی اور سیکیورٹی میں کافی گنجائش رکھتے ہیں، سعودی تاجروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ ہم اس وقت ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، وزیرِ اعظم شہباز شریف کی توجہ صرف معیشت پر ہے۔وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ ہم کئی ایسے اداروں کی نج کاری کر رہے ہیں جن کی ریاست کو اسٹریٹجک ضرورت نہیں، ہماری ترجیح میکرو اکنامک استحکام ہے۔