ٹیکسز کی وصولی بہتر بنانے کیلئے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا آغاز کرچکے، وزیر خزانہ

0
18

اسلام آباد(این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا آغاز کرچکے ہیں، آمدنی اور کھپت کے مطابق ٹیکس کی ادائیگی یقینی بنانے کے لیے کام جاری ہے،ہم ریونیو اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، جدید دور میں شفافیت کے لیے ڈیجیٹائزیشن کی بہت اہمیت ہے،مسابقتی کمیشن کو ہم نے مزید بہتر بنانا ہے، کم سے کم ٹیکس سے متعلق معاملات کو ہم چاہیں گے، ترجیحاً نمٹایا جاسکے۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں، شفافیت کیلئے ڈیجیٹلائزیشن کی جانب جارہے ہیں تاکہ انسانی مداخلت کو نچلی ترین سطح پر لایا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ ہم ریونیو اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، جدید دور میں شفافیت کے لیے ڈیجیٹائزیشن کی بہت اہمیت ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ جو ٹیکس بل پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے، اس کا مقصد ہے کہ نان ڈکلیئریشن یا انڈر ڈکلیئریشن، یا طرز زندگی کو ٹیکسوں سے ہم آہنگ کرنا ہے، ان فارمل سیکٹرز کو فارمل سیکٹرز کی جانب منتقل کیا جائے گا، ٹیکس پیئرز کو تنگ نہیں کیا جائے گا۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ ڈیجیٹلائزیشن کی بات کی جاتی ہے تو اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹلائزیشن لاکر انسانی مداخلت کو کم سے کم کرنے جارہے ہیں، تاکہ کرپشن کی شکایات کو بھی کم کیا جاسکے، نظام میں انسانی مداخلت میں کمی کا مطلب کرپشن میں کمی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مارچ میں جب ہم نے حکومت کا سفر شروع کیا تو اسی وقت یہ سسٹم ڈیزائن کرنے پر کام شروع کردیا گیا تھا، اب ہم اس کی تکمیل کے قریب ہیں، دیانتداری سے ٹیکس دینے والوں کو مزید بوجھ سے بچانے پر توجہ دے رہے ہیں، ٹیکس گیپ اور لیکیجز کو روکنے پر کام کیا جارہا ہے تاکہ عام آدمی پر مزید بوجھ نہ پڑے۔صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ مہنگائی کی اصل وجہ مڈل مین ہے، کچھ دن پہلے جب میں سیالکوٹ چیمبر میں تھا، تو کہا تھا کہ ہم نے مرغی اور دالوں کی قیمتوں کا جائزہ لیا تھا، کہ جب ٹرانسپورٹیشن اور دیگر شعبہ جات میں قیمتیں کم ہورہی ہیں تو ان دو آئتمز کی قیمتیں کیوں بڑھ رہی ہیں، اس کے بعد ہم نے چیف سیکرٹریز صاحب اور صوبوں سے درخواست کی، جس کے بعد مرغی اور دال کی قیمتیں بھی کم ہوئی ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ سیلز ٹیکس کا جہاں تک تعلق ہے، تو چیئرمین ایف بی آر نے تمام انڈسٹریز میں جاکر انہیں اس حوالے سے آگاہ کیا تھا، تمام سیکٹرز پر گورننس بہتر بنائی گئی ہے، شوگر کی صرف آج مثال دی گئی، شفافیت کے لیے ہم ہر اقدام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین ایف بی آر کی جانب اعداد و شمار بتائے گئے ہیں، ڈیٹا نہ ہونے سے کی وجہ سے ہم بے بس تھے، اب کام شروع کیا گیا ہے تو یقینا آگے بہتری آئے گی، ہم اب مانیٹرنگ کریں گے کہ کس وقت کہاں ، کیا چیز کی گئی ہے تو ایسے لوگوں کا نکلنا مشکل ہوگا۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ مسابقتی کمیشن کو ہم نے مزید بہتر بنانا ہے، کم سے کم ٹیکس سے متعلق معاملات کو ہم چاہیں گے، ترجیحاً نمٹایا جاسکے، اس پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود سے اقدامات کیے ہیں، جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں، مسابقتی کمیشن کو مزید مؤثر ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی عام پڑھا لکھا پاکستانی اپنا ٹیکس فارم خود نہیں بھر سکتا، اسے کوئی ایڈوائزر چاہیے تو یہ ٹیکس کے لیے اچھا اشارہ نہیں، چیئرمین ایف بی آر اور دیگر متعلقہ حکام بھی موجود ہیں، وہ اس معاملے کو دیکھیں اور اس پر کام کریں، انشا اللہ اسے ہم آسان بنائیں گے۔وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے کہا کہ مالی خسارے کو کنٹرول کرنے کے لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں گورننس کا معیار بہتر کیا گیا، اسی وجہ سے مہنگائی میں ساڑھے 6 سال کی تاریخی کمی آچکی ہے، اپنے ٹیکس کے وسائل کو مناسب حد تک بڑھانا ہے، اور انہیں برقرار رکھنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صرف تنخواہ دار طبقہ اور صنعتیں ہی ملک کا بوجھ نہ اٹھائیں، بلکہ ہر شعبہ اپنی استعداد کے مطابق جو شیئر بنتا ہے، وہ ٹیکس میں دے، ہم چاہتے ہیں تمام شعبہ جات کو فارمل سیکٹر کا حصہ بنایا جائے، اس کے لیے ہمیں نادرا اور دیگر ہمارے دوستوں نے ڈیٹا فراہم کیا، جس پر ہم ان سب کے شکر گزار ہیں۔علی پرویز ملک نے کہا کہ حقیقی ڈیٹا آپ کے سامنے رکھا گیا ہے، کچھ وقت ہمیں دیں، حکومت کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ کسی کے ساتھ، کسی وقت بھی کوئی سیٹلمنٹ کرنا چاہے تو کرسکتی ہے، اس کے بعد جو پیسہ خزانے میں آئے گا، تو سب کے سامنے آئے گا۔وزیر خزانہ کے ساتھ پریس کانفرنس میں موجود چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے کہا کہ ٹیکسز کا مجموعی خلا 7 ہزار ارب روپے سے زائد ہے، ادارے کی استعداد کار میں اضافہ کیا جارہا ہے، 27 لاکھ افراد اپنے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروا رہے، ٹیکس نظام میں جدید ٹولز متعارف کروائے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس ادائیگی کے لیے سب کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی، ہم نے ایک لاکھ 90 ہزار افراد کو نوٹس جاری کیے، اس کے بعد 38 ہزار افراد نے ریٹرن فائل کر دیے، ٹیکس وصولی میں ٹاپ 5 پر ہمارا فوکس ہے۔صحافیوں کے سوال پر راشد لنگڑیال نے کہا کہ انویسٹمنٹ کے لیے فائلر ہونا ضروری ہے، نان فائلر کی کیٹگری ہی ختم کردی گئی ہے، پیسے صرف ہیں ہی 5 فیصد لوگوں کے پاس ہیں، 800 سی سی کار کے لیے فائلر ہونا ضروری نہیں، موٹرسائیکل خریدلیں، فائلر بننے کی ضرورت نہیں۔پریس کانفرنس کے دوران فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ پاکستان میں کچھ بھی ماورائے آئین یا قانون نہیں ہو رہا، ہم نے پی آئی اے سمیت مختلف اداروں یا شعبہ جات میں جو کام کیے ہیں، وہ سب قانون کے مطابق ہیں۔انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے ملزمان کو فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے بعد اپیل کے فورمز موجود ہیں، ملزمان کو وکیل کا حق حاصل تھا، فوجی عدالتوں کا نظام دنیا کے کئی ممالک میں موجود ہے۔