پشاور(این این آئی) خیبر پختونخوا حکومت نے ضم شدہ اضلاع کے فنڈز کے بغیر ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی مزید توسیع کوتسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ صوبائی حکومت نے خبردار کیا ہے کہ ایسا کرنا خیبر پختونخوا کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوگا، صوبے کا حصہ 19.64فیصد ہونا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ نے وفاقی وزیر خزانہ کے نام خط میں کہا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کا موجودہ شکل میں جاری رہنا نہ صرف آئینی دفعات سے متصادم ہے بلکہ وفاقیت، مساوات اور انصاف کے اصولوں کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے۔ انہوں نے ایوارڈ کی توسیع کے لیے جاری کردہ صدارتی احکامات کو غیر آئینی اور امتیازی قرار دیا۔20 جنوری 2025 کو خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈاپور نے ایک خط میں صوبے کو قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ میں شامل کرنے کے حوالے سے ایک سنگین آئینی مسئلہ اٹھایا۔ خط میں انہوں نے ضم شدہ علاقوں کے بعد خیبر پختونخوا کو این ایف سی ایوارڈ کے فریم ورک میں شامل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام ایک تاریخی قدم تھا جس نے صوبے کی جغرافیائی اور آبادیاتی تشکیل کو نئی شکل دی۔تاہم، ساتویں این ایف سی ایوارڈ، جو صدارتی احکامات کے تحت بڑھایا گیا تھا، اس تبدیلی کو تسلیم کرنے میں ناکام رہا۔ اس کوتاہی کے نتیجے میں ایک سنگین آئینی اور مالی عدم مساوات پیدا ہوئی، جس نے ضم شدہ اضلاع کے64لاکھ باشندوں کو قومی وسائل میں ان کے جائز حصے سے محروم کر دیا۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اس بات پر زور دیا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کا موجودہ شکل میں جاری رہنا ایک آئینی مسئلہ ہے، انہوں نے صدارتی احکامات کو امتیازی اور آئین کے اصولوں کے منافی قرار دیا۔خط میں علی امین گنڈاپور نے اس آئینی کوتاہی کے مالی اثرات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ وفاقی حکومت نے 2019 سے دسمبر 2024 تک خیبر پختونخوا کو این ایف سی کا حصہ 14.62 فیصد کی شرح سے دیا جو کہ 3046 ارب روپے بنتا ہے۔تاہم، ترمیم شدہ این ایف سی شیئر کے مطابق صوبے کا حصہ 19.64فیصد ہونا چاہیے، خیبر پختونخوا کا حق 4092 ارب روپے بنتا ہے۔ اس طرح 6 سال میں1046 ارب روپے کا خسارہ ہوا ہے۔ یہاں تک کہ ضم شدہ اضلاع کے لیے فراہم کیے گئے437 ارب روپے کو شامل کرنے کے بعد بھی، صوبہ اب بھی 609 ارب روپے کے خالص خسارے کا سامنا کر رہا ہے۔وزیر اعلیٰ کے پی نے خط میں لکھا کہ مالی خسارہ خیبر پختونخو کو بری طرح متاثر کر رہا ہے کہ وہ ضم شدہ اضلاع کی ترقیاتی ضروریات، خاص طور پر انفرا اسٹرکچر، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں پیش رفت کو پورا کر سکے۔