پیکا ایکٹ کسی پرقدغن لگانے کیلئے نہیں بلکہ لوگوں کے تحفظ کیلئے ہے،وفاقی وزیر اطلاعات

0
23

اسلام آباد(این این آئی)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کی ذمہ داری صرف ایک ادارہ پر ڈالنا درست نہیں،بلوچستان میں انتشار کیلئے فنڈنگ کہاں سے آتی ہے،ہم سب کو پتہ ہے،ہمیں وانوں کو آگاہی دیکر درست راستے پر لانے ہونگے،ہمیں پتہ ہے کہ کون نہیں چاہتا پاکستان کا ترانہ نہ پڑھا جائے،آزاد کشمیر میں انتشار کیلئے فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے سب جانتے ہیں۔جمعرات کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات کو وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات نے بتایا کہ بلوچستان میں کیا بیانیہ چل رہا ہے یہ دیکھنا اہم ہے،یہ قاصر ہوں کی ایک خاتون ماہرنگ بلوچ اٹھتی ہیں،جلسے کرتی ہے،جس کیلئے ٹرانسپورٹ بھی کھلے ہیں اور کیٹرنگ بھی فراہم کی جاتی ہے،اتنے بڑے جلسے اور ریلیوں کیلئے فنڈنگ کون کر رہا ہے؟ماہرنگ بلوچ حکومتی سکالرشپ کے پیسوں پر ڈاکٹر بنی ہے،اب وہ نوجوانوں کو مس گائیڈ کر رہی ہے،حالانکہ بلوچستان کے حالات وہ نہیں جو ماہرنگ بلوچ پیش کر رہی ہے۔عطائ اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ نوجوانوں میں یہ شعور بیدار کرنا ہو گا کہ صوبے فنڈز کتنا اور کہاں استعمال کررہے ہیں؟کیا صوبوں کی ذمہ داری نہیں کہ ٹیکس کے سو فیصد پیسے صوبوں میں لگے،بلوچستان سمیت تمام صوبوں میں ترقیاتی فنڈز کے سو فیصد کے استعمال کو یقینی بنانا متعلقہ صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ کشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے حالات پیدا کر رکھے ہیں جانتے ہیں کہ اس کے تانے بانے کہاں سے ملتے ہیں،گلگت بلتستان میں بھی ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں،وزارت اطلاعات ونشریات گلگت بلتستان میں بیانیہ بنانے کیلئے کام کرے گی،اس مقصد کیلئے ریڈیو پاکستان گلگت اور سکردو کیلئے جدید ٹرانسمٹرز کی اپگریڈیشن بھی آئندہ مالی سال کے منصوبے میں شامل ہوں گے۔وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات نے بتایا کہ ڈیجیٹل سپیس کی وجہ سے چینلز کی سپیس بھی کم ہو گئی ہے،ہم نے میڈیا انڈسٹری کو سپورٹ کرنی ہے،،میڈیا میں کنٹنٹ پر ایڈیٹوریل کنٹرول ہوتا ہے،اب پیکا ایکٹ کے ذریعے ڈیجیٹل میڈیا پر کنٹرول ممکن ہو گا،ایک شخص ڈیجیٹل میڈیا پر ماہانہ چھ کروڑ کمائے اور حکومت کو ایک پیسے بھی نہ ملے،سارا پیسہ باہر کے ہی رہے تو اس کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے،پیکا ایکٹ میں میڈیا تنظیمیں ایک بھی شق کی نشاندہی نہ کر سکی جو میڈیا کے خلاف ہو،پیکا ایکٹ کسی پرقدغن لگانے کیلئے نہیں بلکہ لوگوں کے تحفظ کیلئے ہے،اس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی سپیس بڑھیں گی،دنیا کے تمام ممالک میں یہ قانون موجود ہے،یہ قانون ہرگز کالا نہیں،نہ ہی کسی کو ٹارگٹ کرنے کیلئے ہے۔پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی پراپرٹیز کی رینٹ کا تعین وزارت ہاوسنگ کرتی ہے،پچھلے مرتبہ وزیر ہاؤسنگ نے خود کیا تھا،وزیر ہاؤسنگ کو طور خصوصی انوائیٹی کمیٹی میں بلانا چاہیے تھا،ہم تو چاہ رہے کہ پوری وزارت منسٹری کو شفٹ کرے،بلیو ایریا میں منسٹری کی اپنی بلڈنگ ہے،جس میں نیچے ایک فلور پر پوری منسٹری کو شفٹ کرے،باقی حصے کو رینٹ اوٹ کرے،وزارت اطلاعات بہت بڑا
محکمہ ہے،وزارت اطلاعات ونشریات نے پاک چائنا سینٹر میں سٹیٹ آف دی آرٹ ڈیجیٹل سینٹر بنایا ہے،میڈیا یونیورستی بنانا سفید ہاتھی کے برابر ہے،ہم چاہتے ہیں پچھلے پچاس سالوں سے التوا کا شکار مسائل کا حل نکالیں،میڈیا یونیورسٹی کو حکومت بنا سکتی ہے اور نہ ہی چلا سکتی ہے،میڈیا یونیورسٹی نجی شعبہ بنائے،نہ صرف وزارت اطلاعات ونشریات بلکہ تمام وزارتوں کو رینٹ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے۔