ججز ٹرانسفر کے عمل میں 4 جوڈیشل فورمز سے رائے لی گئی،سپریم کورٹ

0
30

اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر کیس میں جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ ججز ٹرانسفر کے عمل میں 4 جوڈیشل فورمز سے رائے لی گئی۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز سنیارٹی اور تبادلے سے متعلق درخواستوں پر جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی ۔کراچی بار کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے قیام کا قانون آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت بنا ہے، قانون میں صوبوں سے ججز کی تقرری کا ذکر ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کا کہنا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز تبادلے پر نہیں آسکتے، انڈیا کی طرح یہاں بھی ہائیکورٹس ججز کی ایک سنیارٹی لسٹ ہو تو کیا ہوگا۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ تبادلہ ہو بھی جائے تو مستقل نہیں ہوگا، تبادلہ پر واپس جانے پر جج کو دوبارہ حلف نہیں اٹھانا ہوگا، اگر دوبارہ حلف اٹھایا بھی جائے تو پہلے حلف کا تسلسل ہوگا۔جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ سنیارٹی لسٹ یکساں ہو تو کوئی جھگڑا ہی نہیں ہوگا۔فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ مشترکہ سنیارٹی لسٹ پر سب ججز نتائج سے آگاہ ہوں گے، جج کا مستقل تبادلہ کرنا جوڈیشل کمیشن اختیارات لینے کے مترادف ہے، انڈیا میں ججز کی سنیارٹی لسٹ مشترکہ ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 175 اے کی وجہ سے تبادلہ کا آرٹیکل 200 ختم ہوگیا؟ کیا آرٹیکل 175 اے کے بعد ججز کا تبادلہ نہیں ہوسکتا؟ انڈیا میں تو جج کا تبادلہ رضامندی کے بغیر کیا جاتا ہے، آپ یہ کہنا چاہتے ہیں آرٹیکل 175 اے نے آرٹیکل 200 کو ہی ختم کردیا؟فیصل صدیقی نے کہا کہ ججوں کی سنیارٹی لسٹ دہائیوں میں بنتی ہے، ٹرانسفر کرکے ججوں کی سنیارٹی لسٹ راتوں رات تبدیل نہیں کی جاسکتی، راتوں رات سنیارٹی لسٹ ایگزیکٹو کے ذریعے تبدیل کرنا غاصبانہ عمل ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز ٹرانسفر کیلئے 2 ہائیکورٹس چیف جسٹس اور چیف جسٹس پاکستان نے رائے دی، ایک جج کے ٹرانسفر کے عمل میں 4 درجات پر عدلیہ کی شمولیت ہوتی ہے، اگر ایک درجے پر بھی انکار ہو تو جج ٹرانسفر نہیں ہوسکتا، اگر ٹرانسفر ہونے والا جج انکار کردے تو عمل رک جائے گا۔انہوں نے کہا کہ متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس میں سے کوئی ایک بھی انکار کردے تو عمل رک جائے گا، پہلے تین مراحل کے بعد چیف جسٹس پاکستان انکار کردیں تو بھی عمل رک جائے گا، اگر سب کچھ ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوتا تو الگ بات تھی۔وکیل کراچی بار فیصل صدیقی نے کہا کہ قانون کے عمل میں بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا، سنیارٹی کے معاملے میں عدلیہ کو اندھیرے میں رکھا گیا۔