اسلام آباد (این این آئی)پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے سابق وزیراعظم عمران خان سے مذاکرات یا پس پردہ رابطوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، یہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ آپس بات کریں ، پاکستان کی مسلح افواج، پاکستان کی فوج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے،ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر مکمل توجہ دیتے ہیں، بغیر کسی ثبوت کے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مفروضوں پر توجہ دینے سے اجتناب کیا جانا چاہیے،سٹریٹجک غلط فہمیوں کا شکار لوگ اپنا ذہن صاف کریں،بلوچستان کے لوگ پاکستان کے ساتھ ہیں،یہ حقائق ہیں اور اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے،بلوچستان میں جو دہشت گرد کام کر رہے ہیں، وہ کس کو نشانہ بنا رہے ہیں؟ وہ ہم سے براہ راست مقابلے سے گھبراتے ہیں،کسی کے پاس یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو غائب کرے،سب سے پہلے ہمیں بیانیے، جھوٹ اور سچ میں فرق کرنا ہوگا،پاکستان میں قانون کے نظام کو موثر اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے،اظہارِ رائے کی آزادی کے کچھ اصول اور قوانین ہیں ، معاشرہ ان کے بغیر چل نہیں سکتا،ایک پاکستانی شہری کی زندگی ہمیں ہزاروں افغان شہریوں سے زیادہ مقدم ہے،ہمیں معلوم ہے ہم کس سے نمٹ رہے ہیں، یہ افغان نہیں ہیں انڈین پیسہ، انڈین مدد اور انڈیا کی حکمت عملی ہے ،ان میں سے کچھ افغانوں کے پیچھے ہیں، ہم اپنے ملک اور اس کی حفاظت میں کسی چیز سے گریز نہیں کر سکتے، افغانستان سے درخواست ہے اپنی زمین کو ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوںنے کہاکہ ہم ہمیشہ اس معاملے پر بالکل واضح رہے ہیں، یہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ آپس میں بات کریں، پاکستان کی مسلح افواج، پاکستان کی فوج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس انٹرویو میں بلوچستان میں مبینہ جبری گمشدگیوں، فوج پر سیاست میں مداخلت کے الزامات سمیت انڈیا اور افغانستان سے متعلق کردار سے متعلق سوالات کے جواب دیے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ ہم سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، ہم پاکستان کی ریاست سے بات کرتے ہیںجو کہ آئین پاکستان کے تحت سیاسی جماعتوں سے مل کر بنی ہے،جو بھی حکومت ہوتی ہے وہی اس وقت کی ریاست ہوتی ہے اور افواجِ پاکستان اس ریاست کے تحت کام کرتی ہیں۔جب ڈی جی آئی ایس پی آر سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ ملک میں جب کبھی سیاسی عدم استحکام پیدا ہو، فوجی قیادت کا ہی نام آتا ہے؟انہوںنے جواب دیاکہ میرا خیال ہے کہ یہ سوال ان سیاستدانوں یا سیاسی قوتوں سے پوچھنا چاہیے جو اس کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا اس معاملے کو ہی اصل مسئلہ بنا دیتے ہیں اور شاید یہ ان کی اپنی نااہلی یا اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہے جن کی طرف وہ توجہ نہیں دینا چاہتے ہیں۔ میں ان کے سیاسی مقاصد پر تبصرہ نہیں کروں گا،ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ اپنی سیاست اپنے تک رکھیں اور پاکستان کی مسلح افواج کو اس سے دور رکھیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سیاست میں مداخلت کے تاثر کو ردّ کیا ہے اور اسے سیاسی ایجنڈوں کو تقویت دینے کیلئے پھیلائی گئی افواہ قرار دیا۔انہوںنے کہاکہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے فوج کے خلاف بہت سی افواہیں اور مفروضے پھیلائے جاتے ہیں،یہاں تک کہ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ فوج اپنا کام نہیں کرتی اور سیاست میں ملوث ہے لیکن جب معرکہِ حق آیا تو کیا فوج نے اپنا کام کیا یا نہیں؟ کیا قوم کو کسی پہلو میں فوج کی کمی محسوس ہوئی؟ نہیں، بالکل نہیں،ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر مکمل توجہ دیتے ہیں اور ہماری وابستگی پاکستان کے عوام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری اور پاکستانیوں کے تحفظ سے ہے،یہی وہ کام ہے جو فوج کرتی ہے۔انہوںنے کہاکہ اس لیے بغیر کسی ثبوت کے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مفروضوں پر توجہ دینے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی فوج، جس کے بارے میں کہا جائے کہ وہ منقسم ہے اور اپنے عوام سے کٹی ہوئی ہے، یہ سب کچھ کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہم صرف اندرونی طور پر ہی چٹان کی طرح متحد نہیں، بلکہ بحیثیت قوم بھی متحد ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کی فوج متعدد مواقع پر سیاسی حکومت، چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی، کے احکامات اور ہدایات پر عمل کرتی ہے۔انہوںنے کہاکہ میں ماضی میں زیادہ دور نہیں جانا چاہتا لیکن کورونا کے دوران پاکستان میں ردعمل کی قیادت کس نے کی؟ وزارت صحت نے؟ فوج کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا تاہم این سی او سی کون چلا رہا تھا؟ اس پورے ردعمل کی قیادت کس کے پاس تھی؟ فوج کے پاس۔انہوںنے کہاکہ اس وقت کسی کو ہم سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، اس ملک میں جب پولیو ٹیمیں ویکسین کے لیے نکلتی ہیں، تو فوج ہی ان کے ساتھ ہوتی ہے، جب واپڈا بجلی کے میٹر چیک کرنا چاہتے ہیں، تو فوج کو ساتھ لے جانے کی درخواست کی جاتی ہے کیونکہ مقامی لوگ وہاں مسئلہ کھڑا کرتے ہیں، اس ملک میں، اپنی سروس کے دوران میں نے نہریں بھی صاف کی ہیں،ہم عوام کی فوج ہیں اور جب بھی حکومت وقت، چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، جب وہ ہمیں کہتی ہے تو آرمی حتی الامکان حد تک پاکستانی حکومت اور عوام کے لیے آتی ہے۔انھوں نے کہا کہ اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں،اس دوران مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں، ہم اس بات کو بالائے طاق رکھ کر کہ کس سیاسی جماعت یا سیاسی قوت کی حکومت ہے، ہم عوام کے تحفظ اور بھلائی کے لیے آتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ جو داخلی سلامتی کے لیے فوج خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں موجود ہے، وہ بھی صوبائی حکومت کے احکامات پر ہے۔ ہم یہ فیصلے خود نہیں کرتے،یہ سیاسی قوتیں طے کرتی ہیں کہ فوج کو کہاں تعینات کیا جائے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال سے متعلق بھی بات کی اوراس سوال پر کہ مقامی آبادی کی حمایت کے بغیر کیا بلوچستان میں امن و امان کے قیام کے لیے کوئی آپریشن کامیاب ہو سکتا ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ انڈیا کی جانب سے پھیلایا گیا پراپیگنڈہ ہے کہ بلوچستان کے عوام پاکستانی فوج کے ساتھ نہیں ہیں۔انھوں نے واضح کیا کہ جو لوگ سٹریٹجک غلط فہمیوں کے ساتھ بیٹھے ہیں، انھیں اپنا ذہن صاف کرنا چاہیے، یہ خیال کہ بلوچستان کے لوگ پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ نہیں ہیں، یہ بالکل غلط ہے، بلوچستان کے لوگ پاکستان کے ساتھ ہیں،یہ حقائق ہیں اور اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ بلوچستان اور پاکستان ایک ہیں۔ یہ ہمارے سر کا تاج ہے
مقبول خبریں
آئی اے ای اے کی رپورٹ ہماری ایٹمی سہولیات پر حملے کا بہانہ تھی،...
تہران (این این آئی )ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی...
عامر خان نے اپنے شاہ رخ خان کے 15 سال پرانے رویے کو بچکانہ...
ممبئی (این این آئی) ہالی ووڈ کے اسٹار اداکار عامر خان نے انکشاف کیاہے کہ شاہ رخ خان مجھ سے ناراض تھا اور ہم...
میں عمر کیوں چھپائوں؟ میں جو ہوں، مجھے ایسا ہی قبول کیا جانا چاہیے،ماہرہ...
کراچی (این این آئی) اداکارہ ماہرہ خان نے اپنی بڑھتی عمر پر ہونے والی تنقید اور اس پر والدہ کی پریشانی سے متعلق ایک...
وزیراعظم کی پاکستان ٹورازم ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو ملک میں سیاحت کے فروغ کیلئے فوری...
اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان ٹورازم ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے فوری عملی اقدامات...
امریکی عدالت میں عافیہ صدیقی کیس کا فریق بننے سے انکار، حکومت سے جواب...
اسلام آباد(این این آئی)حکومت نے امریکی عدالت میں عافیہ صدیقی کیس میں عدالتی معاونت اور فریق بننے سے انکار کر دیا۔ اسلام آباد ہائی...