ہائی کورٹ نے عمران خان کی دہشت گردی کے مقدمے میں 3 روز کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کرلی

0
208

اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی دہشت گردی کے مقدمے میں 3 روز کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔گرفتاری کے خدشات کے پیش نظر سابق وزیراعظم عمران خان نے دہشت گردی کے مقدمہ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔واضح رہے کہ گزشتہ روز سابق وزیر اعظم کے خلاف اعلیٰ سرکاری افسران کو دھمکیاں دینے کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس بابر ستار نے کیس کی سماعت کی۔جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ درخواست پر اعتراض کیا ہے؟ جس پر بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کو متعلقہ عدالت سے رجوع کا اعتراض عائد کیا گیا ہے، عمران خان کے گھر کے گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے، عمران خان متعلقہ عدالت سے بھی رجوع نہیں کرسکتے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ بائیومیٹرک کا بھی اعتراض عائد کیا گیا ہے، بابر اعوان نے جواب دیا کہ یہ عدالت ہمیں حفاظتی ضمانت دے تو متعلقہ عدالت سے رجوع کر لیں، اگر عدالت قبل از گرفتاری ضمانت کا اختیار استعمال کرنا چاہے تو وہ آپ کا اختیار ہے جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نہیں، ابھی تو متعلقہ فورم انسداد دہشت گردی عدالت ہی ہے۔اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات تک عمران خان کو گرفتار کرنے سے روکتے ہوئے ان کی 3 روزہ حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو جمعرات تک متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دیدیا۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ 4 دن کی حفاظتی ضمانت دی جائے جس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کہ کیا آپ کو لاہور یا کراچی جانا ہے؟عمران خان کے وکیل نے کہا کہ تین دن کا وقت بہت کم ہے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ میں اسپیشل جج تعینات کر کے ایک گھنٹے میں متعلقہ عدالت جانے کا آرڈر کردوں گا۔قبل ازیں چیئرمین پی ٹی آئی نے وکیل بابر اعوان اور فیصل چوہدری کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔سابق وزیر اعظم کی جانب سے درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرے۔سابق وزیراعظم کی جانب سے درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ عدالت جب کہے مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کو تیار ہوں، ماضی میں میرا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے، نہ ہی کبھی کسی مقدمے میں مجھے سزا ہوئی ہے، میرا فرار ہونے یا میری جانب سے پراسیکوشن کے شواہد خراب کرنے کا امکان تک نہیں ہے۔