خاتون جج کو دھمکانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیا جواب جمع کرادیا

0
219

اسلام آباد (این این آئی)سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرا دیا۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی جانب سے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق بیان پر توہین عدالت کے کیس میں آج عمران خان کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔عمران خان کی جانب سے بدھ کے روز دوبارہ جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ غیر ارادی طور پر بولے گئے الفاظ پر افسوس ہے، بیان کا مقصد خاتون جج کی دل آزاری کرنا نہیں تھا، اگر خاتون جج کی دل آزاری ہوئی تو اس پر افسوس ہے۔سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا کہ اپنے الفاظ پر جج زیبا چوہدری سے پچھتاوے کا اظہار کرنے سے شرمندگی نہیں ہوگی، عدلیہ کے خلاف توہین آمیز بیان کا سوچ بھی نہیں سکتا۔چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب میں کہا ہے کہ تقریر کے دوران لفظ ‘شرمناک’ توہین کے لیے استعمال نہیں کیا، جج زیبا چوہدری کے جذبات مجروح کرنا مقصد نہیں تھا۔عمران خان نے عدالت عالیہ میں جمع کرائے گئے اپنے بیان میں کہا کہ میرے الفاظ سے جج زیبا چوہدری کے جذبات مجروح ہوئے، اس پر گہرا افسوس ہے، غیر ارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے۔ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں سابق وزیر اعظم نے غیر مشروط معافی نہیں مانگی، عمران خان نے توہین عدالت کیس کے جواب میں افسوس کا اظہار کیا ہے۔عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ انصاف کی فراہمی کے لیے عدلیہ بشمول ماتحت عدلیہ کو مضبوط کرنے پر یقین رکھتا ہوں، خاتون ججز کی اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ میں زیادہ سے زیادہ بھرتی کا حمایتی ہوں، مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہائی کورٹ میں شہباز گل کیس کی اپیل زیر التوا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے لگا کہ ماتحت عدالت نے جسمانی ریمانڈ دے دیا تو بات وہاں ختم ہوگئی، شہباز گل پر ٹارچر کی خبر تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آئی، جو ویڈیوز آئیں ان میں شہباز گل کو سانس نہیں آرہی تھی اور وہ آکسیجن ماسک کے لیے منتیں کر رہے تھے، شہباز گل کی اس حالت نے ہر دل اور دماغ کو متاثر کیا ہوگا۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ طلال چوہدی کیس الگ نوعیت کا تھا، طلال چوہدری نے بیان پر کبھی کوئی افسوس ظاہر نہیں کیا تھا، عدالت نے مجھے ضمنی جواب کی مہلت دی اس پر بھی تنقید ہوئی، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی تاک میں رہنے والوں نے شدید تنقید کی۔عمران خان نے جواب میں کہا کہ عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ آئندہ ایسے معاملات میں انتہائی احتیاط سے کام لوں گا، کبھی ایسا بیان دیا نہ مستقبل میں دوں گا جو کسی عدالتی زیر التوا مقدمے پر اثر انداز ہو۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میں عدلیہ مخالف بدنیتی پر مبنی مہم چلانے، عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے یا انصاف کی راہ میں رکاوٹ کا سوچ بھی نہیں سکتا۔انہوں نے اپنے جواب میں عدالت عالیہ سے وضاحت کو منظور کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔