اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب پولیس میں سیاسی مداخلت پر ٹرانسفر پوسٹنگ سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے پنجاب حکومت سے سیاسی مداخلت پر پولیس افسران کے تبادلوں پر جواب طلب کر لیا۔بدھ کو چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔عدالتِ عظمی نے درخواست گزار کی استدعا پر مقدمے کا دائرہ وفاق اور دیگر صوبوں تک بڑھاتے ہوئے وفاق اور باقی صوبوں سے بھی پولیس میں ٹرانسفر پوسٹنگ پر جواب طلب کر لیا۔سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ وفاق اور صوبے گزشتہ 8 سال میں محکمہ پولیس میں ٹرانسفر پوسٹنگ کا ریکارڈ پیش کریں۔عدالتِ عظمی نے 2 ہفتوں میں وفاق اور صوبوں کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ جمع کرائے گئے ڈیٹا کے مطابق پنجاب میں ڈی پی او کی اوسط ٹرم 5 ماہ ہے، 4 سال میں پنجاب میں 268 ڈی پی اوز کے تبادلے ہوئے۔جسٹس عائشہ ملک نے درخواست گزار کے وکیل سے سوال کیا کہ یہ اعداد و شمار آپ نے کہاں سے حاصل کیے ہیں؟وکیل نے جواب دیا کہ یہ اعداد و شمار سی پی او آفس سے حاصل کیے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پولیس میں سیاسی تبادلوں سے کرمنل جسٹس سسٹم کی کارکردگی پر فرق پڑتا ہے۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پنجاب میں آئی جی پولیس کی ایوریج ٹرم 6 ماہ ہے جو قانون کے مطابق 3 سال ہونی چاہیے، 4 سال میں پنجاب میں پولیس افسران کو بغیر وجہ کے تبدیل کیا گیا۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل کے مطابق یہ معاملہ پنجاب تک محدود نہیں، اسلام آباد کے سابق آئی جی پڑھے لکھے اور ڈیسنٹ افسر تھے، سابق آئی جی اسلام آباد نے سندھ ہاوس پر حملے کا معاملہ بڑے اچھے انداز میں نمٹایا، آئی جی اسلام آباد بھی تبدیل ہو گئے تھے۔عدالت نے کہا کہ پولیس افسران کے بے وجہ تبادلوں سے کرمنل جسٹس سسٹم کی پرفارمنس پر اثر پڑتا ہے، ان حالات میں افسران میں سیاسی اثر و رسوخ سے اعلی عہدے حاصل کرنے کا رجحان بڑھتا ہے، درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ معاملے کا دائرہ وفاق اور دیگر صوبوں تک بڑھایا جائے، وفاق اور صوبے عدالت میں جواب جمع کرائیں۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں شہری نے پولیس میں سیاسی اثر و رسوخ سے ٹرانسفر پوسٹنگ کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے۔شہری کی جانب سے سابق چیف سیکریٹری پنجاب کامران علی افضل کی بحالی کی درخواست بھی دائر ہے۔