مسلم لیگ (ن) ، اتحادیوںکا پنجاب کی صورتحال پر ہائیکورٹ کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار ،چیلنج کرنے کا عندیہ

0
226

لاہور( این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن)اور اتحادیوں نے پنجاب کی صورتحال پر لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار اور اسے چیلنج کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ گزارش ہے کہ پنجاب کے معاملے پر عدالتی فیصلے پر نظر ثانی یا سو موٹونوٹس لیا جائے ،کرپشن کی روک تھام کے لئے پنجاب حکومت کو ڈے ٹو ڈے بزنس تک محدود کیا جائے ، بد قسمتی سے پاکستا ن میںنظریہ ضرورت کبھی بھی دفن نہیں ہوتا ،جب تک اس کی تدفین نہیں ہوتی ،پسند اور نا پسند کا نظام ختم نہیں ہوت اس ملک میں انصاف نہیں مل سکتا،عمران خان اورسہولت کاروں نے جو تباہی کی وہ ختم نہیں ہوئی ، ہم اس کو ریورس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،پنجاب میں جو اقلیت میں چلے گئے ہیں انہیں کیسے اجازت دی جا سکتی کہ وہ آئین پر عملدرآمد نہ کریں ، عمران خان ، ا س کے ساتھی اور سہولت کار چاہتے ہیں پاکستان آگے نہ بڑھے اوربار بار جمہوری نظام پر حملے کرتے ہیں،ہم تب تک جنرلز اور ججز کو الزام نہیں دے سکتے جب تک ہم آلہ کار نہیں بنتے ،عمران خان آلہ کار بنا ، سیاسی جماعتوں نے ماضی میں جو غلطیاں کیں وہ تو اس سے تائب ہو چکی تھیں،اب بھی عمران خان چاہتا ہے کہ کسی طریقے سے اسٹیبلشمنٹ سیاست میں ملوث ہو اور اسے اقتدار کے تخت پر بٹھا دے ، یہ کھلم کھلا بات کرتا ہے اس کو شرم نہیں آتی ،ملک کے ساتھ بہت ہو گیاہے، یہ جو کھیل شروع ہوا ہے یہ گندی سیاست ہے ہم اس میں نہیںجانا چاہتے،اعتماد کا ووٹ لیں اور پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں ، آج یہ اپنے لوگوں کو دو ، دو ارب روپے کی پیشکش کر رہے ہیں ، انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے،یہ جس اسمبلی کو تحلیل کریں گے وہاں پر انتخابات کر ادیں گے۔ان خیالات کا اظہار وفاقی وزراء خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ خان نے پارٹی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ، عطا اللہ تارڑ ،عظمیٰ بخاری، رانا ارشد سمیت دیگر بھی موجود تھے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا یہ موقف رہا کہ منتخب اداروں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے ، ہم آئینی تبدیلی کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو نکال کر وفاقی حکومت میں آئے تھے اور اس کے لئے آئینی پراسس کو فالو کیا گیا۔ اتحادیوںنے ایک ایسے موقع پر حکومت سنبھالی تھی جب ملک دیوالیہ ہونے کے کنارے پر کھڑا تھا،عمران خان کی پونے چار سال کی حکومت کی پالیسیوںنے پاکستانکو ڈیفالٹ اور فالٹ دونوں لائنزپرکھڑا کر دیا تھا،ان کے سارے گناہوںاور خرابیوں کا بوجھ ہم نے اٹھایا، ہم نے اپنی سیاست دائو پر لگائی لیکن ریاست اک دفاع کیا ،شہباز شریف کی قیادت میں ملک کو خطرناک صورتحال سے واپس لائے ، وہ دن گیا آج کا دن آیا ہے عمران خان ، تحریک انصاف اور ان کے سہولت کاروں نے ہمیں کام نہیں کرنے دیا ، یہ کبھی راستے میں سرنگیں بچھاتے ہیں، کبھی گڑھے اورکہیں کھائیاں کھودتے ہیں اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، اس کی سب سے کلاسیکل مثال شوکت ترین کی صوبائی وزراء خزانہ کو ٹیلیفون کال ہے جو پوری قوم نے سنی ، وہ کہہ رہے ہیں اپ نے آئی ایم ایف کو لکھنا ہے کہ وفاقی حکومت جوبات کر رہی ہے ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے تاکہ نہ آئی ایم ایف کا تالہ کھلے اورمالیاتی ادارے پاکستان کی مدد کریں اور پاکستان ڈیفالٹ کرجائے ۔ عمران خان نے شور مچایا ہوا تھاکہ اسمبلیاں ٹوٹنی چاہئیں اورقبل از وقت انتخابات ہونے چاہئیں،اسمبلیاں توڑنا بچوں کا کھیل نہیں ، یہ کھلونا نہیںہے کہ کہ جب دل چاہا بنا لیا اور جب دل چاہا توڑ دیا ، صورتحال یہ ہے کہ جب گورنر نے محسوس کیا کہ وزیر اعلیٰ کواعتماد کا ووٹ لینا چاہیے انہوںنے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کی اور انہیں اعتماد کے ووٹ کا کہا گیا لیکن انہوںنے اس سے گریز کیا، ان کو اس کے لئے باقاعدہ وقت دیا گیا ،پرویز الٰہی کے پاس اکثریت نہیں اور جس کے پاس اکثریت نہیںوہ قائد ایوان نہیں ہوسکتا اور یہ ہم نہیں آئین کہتا ہے ۔ آئینی آرڈر کو نہیں مانا گیا جس پر گورنر نے اپنے قانونی و آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انہیںڈی نوٹیفائی کیا ۔اسے ہائیکورت میںچیلنج کیا گیا اور جو فیصلہ آیا ہے اس میں خلاء ہے اور ہم سمجھتے ہیں یہ انصاف کے تقاضے پورے نہیںکرتا ۔ ہم ادب سے گزارش کرتے ہیں کوئی فرد یا ادارہ آئین سے رو گردانی نہیںکر سکتا ، قائد ایوان وہی ہوگا جس کو ایوان کی اکثریت حاصل ہوگی ۔اس فیصلے میں ان کو 18دن دئیے گئے ہیں،خدا نہ کرے ان دنوںمیں ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ موجود ہے ،دوسری پارٹی کی طرف سے منڈی لگ سکتی ہے کیونکہ ان کے پاس اکثریت نہیں ،اگر اکثریت ہوتی تو وہ اعتماد کا ووٹ لے لیتے ، ہم نے اپنے موقف کا دفاع بھی کیاکہ ان کو کوئی ٹائم دیدیں اور یہ اعتماد کا ووٹ لیں جو انہیں لینا پڑے گا لیکن عدالت کے فیصلے میں گنجائش چھوڑ ی گئی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اعتماد کا ووٹ لیں ۔ ہمارے قانونی وآئینی ماہرین سمجھتے ہیں اس میں کوئی گنجائش نہیں ۔ انہوںنے کہا کہ ہماری میٹنگ ہوئی ہے اور امکان ہے کہ ہم اس فیصلے کو چیلنج کریں گے ۔ہم چاہتے ہیں پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ نہ ہو اور اسمبلی اپنا کام کریں ۔ یہ امر اطمینان کا باعث ہے کہ فی الوقت اسمبلی ٹوٹنے کا خطرہ ٹل گیا ہے اور عمران خان کی جو بڑھک تھی وہ ہوا میں تحلیل ہو گئی ہے ۔ اگر عمران خان اسمبلیاں توڑنے میں بہت سنجیدہ ہوتے تو الٹی میٹم دینے کی بجائے اسمبلیاںتڑوا دیتے ہیں، آپ خیبر پختوانخواہ کی اسمبلی توڑ سکتے ہیں لیکن آپ کا بھاڑہ خرچہ کون اٹھائے گا ، پنجاب میں نزلہ عوام پر گرایا جانا تھا جس کا ہم نے دفاع کیا ہے ۔انہوںنے کہاکہ عدالتی فیصلے میں قانونی خلاء ہے جس کو رسپانڈ کیا جانا ضروری ہے ، آج پنجاب میں منتخب حکومت نہیں ہے اور حکم امتناعی پر قائم ہے ، آج یہ ترقیاتی بجٹ کے کے نام پر اربوں روپے لٹا رہے ہیں ۔انہیں اعتماد کا ووٹ لینا ہے وہ نہیں لیں گے تو بات بالکل واضح ہے کہ موجودہ پنجاب حکومت کو اکثریت حاصل نہیں ہے ،یہ حکم امتناعی کے پیچھے چھپ رہے ہیں