مسلم لیگ(ن) کے پانچ سالہ دور حکومت میں مجموعی قومی پیداوار کے حجم میں 112ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ، وزیر خزانہ

0
235

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے پانچ سالہ دور حکومت میں مجموعی قومی پیداوار کے حجم میں 112ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ پاکستان کے چار سالہ دور حکومت میں ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں محض 26 اربڈالر کا ہی اضافہ ہو سکا ،سے 2018 کے دوران پائیدار بلند شرح نمو کے نتیجہ میں پاکستان کی معیشت دنیا میں 24ویں نمبر پر آ گئی تھی، دنیا کے معتبر ادارے پاکستان کی ترقی کے معترف تھے جبکہ حکومت کی جانب سے معاشی اشاریوں سے متعلق مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے ادوار کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جی ڈی پی کی شرح مسلم لیگ (ن) کے دور میں 2013-14ء میں 4.05، 2014-15ء میں 4.06، 2015-16ء میں4.56 اور 2016-17ء میں4.61 اور 2017-18ء میں 6.10 رہی جبکہ تحریک انصاف کے دور 2018-19ء میں یہ شرح 3.12، 2019-20ء میں منفی 0.94، 2021-21ء میں 5.74 اور 2021-22ء میں 5.97 فیصد رہی۔ جی ڈی پی (ایم پی) 2013-14میں 25169 ارب ، 2014-15میں 27443 ارب، 2015-16میں32725 ارب ، 2016-17میں35553 ارب ، 2017-18میں39190 ارب روپے رہی۔ جبکہ2018-19میں43798ارب،2019-20میں47540 ارب، 2020-21میں55796 ارب، 2021-22میں66950 ارب روپے رہی۔اسی طرح ڈالرز میں یہ رقم 2013-14میں 244.7 ارب ڈالر، 2014-15میں 270.9 ارب ڈالر، 2015-16میں313.9ارب ڈالر، 2016-17میں339.6 ارب ڈالر ، 2017-18میں356.8 ارب ڈالر رہی جبکہ2018-19میں321.8ارب ڈالر،2019-20میں300.8 ارب ڈالر، 2020-21میں348.7 ارب ڈالر، 2021-22میں382.8 ارب ڈالر رہی۔فی کس آمدن کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 2013-14میں1389 ڈالر، 2014-15میں1514ڈالر ، 2015-16میں1640ڈالر، 2016-17میں1723 ڈالر، 2017-18میں1768 ڈالر تھی جبکہ2018-19میں1578 ڈالر،2019-20میں1458 ڈالر، 2020-21میں1676ڈالر اور 2021-22میں1798 ڈالر تھی۔مالیاتی خسارے کے متعلق اعدادو شمار سے ظاہرہوتا ہے کہ 2013-14میں5.5 فیصد، 2014-15میں5.3 فیصد، 2015-16میں4.1 فیصد،2016-17میں5.2 فیصد اور 2017-18میں5.8 فیصد رہا جبکہ 2018-19میں مالیاتی خسارہ7.9 فیصد، 2019-20میں7.1 فیصد،2020-21میں6.1 فیصداور2021-22میں7.9 فیصد رہا۔ایف بی آر کے محاصل 2013-14میں2254.5 ارب روپے،2014-15میں2589.9 ارب روپے،2015-16میں3112.5 ارب روپے،2016-17میں3367.9 ارب روپے اور 2017-18میں3843.8 ارب روپے رہے جبکہ 2018-19میں3828.5 ارب روپے ،2019-20میں3998ارب روپے ،2020-21میں4745ارب روپے اور 2021-22میں6148 ارب روپے رہے۔جی ڈی پی کے مقابلے میں ایف بی آر کے محاصل2013-14میں9 فیصد،2014-15میں9.4فیصد، 2015-16میں9.5فیصد،2016-17میں9.5فیصد اور 2017-18میں9.8فیصدرہے جبکہ 2018-19میںیہ شرح 8.7فیصد، 2019-20میں8.4فیصد،2020-21میں8.5فیصداور 2021-22میں9.2 فیصد رہی۔بیرون ملک سے وصول ہونیوالا زرمبادلہ 2013-14میں15.8 ارب ڈالر،2014-15میں18.7ارب ڈالر،2015-16میں19.9ارب ڈالر،2016-17میں19.4ارب ڈالراور2017-18میں19.9ارب ڈالرتھا جبکہ 2018-19میں21.7ارب ڈالر،2019-20میں23.1ارب ڈالر،2020-21میں29.4ارب ڈالراور 2021-22میں31.3ارب ڈالررہا۔ سالانہ افراط زر (سی پی آئی)2013-14میں8.6فیصد، 2014-15میں4.5فیصد، 2015-16میں2.9فیصد، 2016-17میں4.8فیصداور 2017-18میں4.68فیصدرہا جبکہ2018-19میں 6.80فیصد، 2019-20میں10.74فیصد، 2020-21میں8.90فیصداور 2021-22میں12.2فیصد رہا۔براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) 2013-14میں1700 ملین ڈالر، 2014-15میں1034ملین ڈالر، 2015-16میں2393ملین ڈالر، 2016-17میں2407ملین ڈالراور 2017-18میں 2780ملین ڈالررہی جبکہ 2018-19میں1362ملین ڈالر، 2019-20میں2597ملین ڈالر، 2020-21میں1820ملین ڈالراور 2021-22میں1868ملین ڈالررہی ۔کرکٹ اکائونٹ خسارہ 2013-14میں3.1ارب ڈالر، 2014-15میں2.8ارب ڈالر، 2015-16میں5.0ارب ڈالر، 2016-17میں12.3ارب ڈالراور 2017-18میں19.2ارب ڈالرتھا جبکہ 2018-19میںیہ خسارہ 13.4ارب ڈالر،2019-20میں4.4ارب ڈالر، 2020-21میں2.8ارب ڈالراور 2021-22میں17.4ارب ڈالر تھا۔تجارتی خسارہ 2013-14میں16.6ارب ڈالر، 2014-15میں17.3ارب ڈالر، 2015-16میں19.2ارب ڈالر، 2016-17میں26.0ارب ڈالراور 2017-18میں30.9ارب ڈالررہا جبکہ 2018-19میں27.6ارب ڈالر، 2019-20میں21.1ارب ڈالر، 2020-21میں28.6ارب ڈالراور 2021-22میں39.7ارب ڈالررہا۔برآمدات سے متعلق اعدادوشمار کے مطابق 2013-14میں25.1 ارب ڈالر، 2014-15میں 24.1ارب ڈالر، 2015-16میں21.9ارب ڈالر، 2016-17میں22.0ارب ڈالراور 2017-18میں24.8ارب ڈالررہیں جبکہ 2018-19میں24.3ارب ڈالر، 2019-20میں22.5ارب ڈالر، 2020-21میں25.6ارب ڈالراور 2021-22میں32.5ارب ڈالر رہیں۔ درآمدات 2013-14میں41.7ارب ڈالر، 2014-15میں41.4ارب ڈالر،2015-16میں 41.1ارب ڈالر، 2016-17میں48.0ارب ڈالراور2017-18میں55.7ارب ڈالررہیں جبکہ 2018-19میں51.9ارب ڈالر، 2019-20میں 43.6ارب ڈالر، 2020-21میں54.3ارب ڈالراور 2021-22میں72.2ارب ڈالر رہیں۔مجموعی زرمبادلہ کے ذخائرجون کے اختتام پر سالانہ بنیادوں پر 2013-14میں14.1ارب ڈالر، 2014-15میں18.7ارب ڈالر، 2015-16میں23.1ارب ڈالر، 2016-17 میں21.4ارب ڈالراور 2017-18میں16.4ارب ڈالرتھے جبکہ 2018-19میں14.5ارب ڈالر، 2019-20میں 18.9ارب ڈالر، 2020-21میں24.4ارب ڈالراور 2021-22میں15.5ارب ڈالرتھے۔دریں اثناء وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے بتایا کہ مسلم لیگ(ن) کے پانچ سالہ دور حکومت میں مجموعی قومی پیداوار کے حجم میں 112 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ پاکستان کے چار سالہ دور حکومت میں ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں محض 26 اربڈالر کا ہی اضافہ ہو سکا ۔ 112 ارب ڈالر کے اضافے کا موازنہ صرف 26 ارب ڈالر کے اضافے سے آپ خود کر سکتے ہیں جب2013 میں مسلم لیگ(ن) نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی تب پاکستان کی فی کس آمدنی 1389 ڈالر تھی اس میں مضبوط معاشی پالیسیوں اور ہمارے قائد کے وژن کی بدولت یہ 379 ڈالر کے واضح اضافے کے ساتھ 1768 ڈالر تک پہنچ گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے سطحی قسم کے اقدامات کی وجہ سے محض 30 ڈالر کا ہی اضافہ کر کے فی کس آمدنی کو 1798 ڈالر تک ہی پہنچا سکی۔انہوں نے کہا کہ !پاکستان سٹاک ایکسچینج جس کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن 2018میں 100 ارب ڈالر تھی جو کہ پاکستان پر سرمایہ داروں کے اعتماد کو ظاہر کرتی تھی کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 26 ارب ڈالر پر لاکھڑاکیا۔ یہ کی سرمایہ داروں کے پاکستان تحریک انصاف حکومت پر عدم اعتماد کو ظاہر کرتامسلم لیگ(ن) کی حکومت ہمیشہ سے ملکی قرضوں میں کم سے کم اضافے کی کوشش کرتی ہے 2018 میں جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو قرضوں کا حجم 24,953 ارب روپے تھا جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے چار سالہ دور حکومت میں بڑھ کر 44,383 ارب روپے ہو گیا۔ یہ قرضوں کا حجم جو کہ 2018 میں جی ڈی بی کا63.7 فیصد تھا بڑھ کر 2022 میں %73.5 ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں ہماری سالانہ قرضوں کی ادائیگی اس مالی سال میں 5,000 ارب روپے سے تجاوز کر جائے گی۔2013 سے 2018 کے دوران پائیدار بلند شرح نمو کے نتیجہ میں پاکستان کی معیشت دنیا میں 24ویں نمبر پر آ گئی تھی۔ دنیا کے معتبر ادارے پاکستان کی ترقی کے معترف تھے۔ جاپان کے معروف ادارے JETRO نے براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی)کے حوالے سے پاکستان کو دنیا کا دوسرا پسندیدہ ترین ملک قرار دیا تھا۔ اسی طرح پاکستان سٹاک اینچ جنوبی ایشیا میں اولنمبر پر تھی۔انہوں نے کہا کہ !معزز اراکین کو یاد ہوگا کہ 18-2017 میں معیشت کی نمو 6% سے تجاوز کر چکی تھی۔ افراط زر کی شرح %5 سے کم تھی۔ کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی میں سالانہ اوسط اضافہ صرف %2 تھا۔ ان حالات میں اچانک ایک ایسی غیر سیاسی تبدیلی لائی گئی جس نے ایک کامیاب اور بھر پور مینڈیٹ کی حامل حکومت کو اپاہج کر دیا۔ پھر 2018 کے الیکشن میں ایک سلیکٹڈحکومتوجود میں آئی۔ اس سلیکٹڈ حکومت کی معاشی ناکامیوں پراتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جو ملک دنیا کی 24ویں بڑی معیشت بن چکا تھا وہ 2022 میں گر کر 47ویں نمبر پر آ گیا ۔میں اس معزز ایوان کے توسط سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ اس معاشی تنزلی کی وجوہات جاننے کیلئے ایک قومی کمیشن تشکیل دیا جائے جو اس تہہ تک پہنچے کہ ملکی مفاد کے خلاف یہ سازش کیسے اور کس نے کی جس کے نتیجے میں قوم آج ایک بھاری قیمت ادا کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ !موجودہ حکومت کو ایک بیمار معیشت ورثے میں ملی۔ مالیاتیخسارہ موجودہ دور کی بلند ترین شرح یعنی 7.9 فیصد پر تھا۔ بیرونی ادائیگیوں کا خسارہ 17.4 ارب ڈالر تھا اور تجارتی خسارہ 40 اربڈالر پر پہنچ چکا تھا۔ معیشت تباہی کے دھانے پر تھی۔ ہم نے 2018 تک معیشت کو مضبوط معاشی بنیادوں پر کھڑا کیا تھا۔ ہمارے پیش روں نے اسے برباد کر کے رکھ دیا۔موجودہ حکومت کو آئے ہوئے ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے اور معیشت کو سنبھالا دیا جا رہا تھا کہ تاریخی سیلاب کی ناگہانی آفت نے اپوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے جن میں سے بیشتر بے گھر ہوئے اور 1,730 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس قدرتی آفت سے مجموعی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر یعنی تقریبا 8 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بیماریاں پھوٹ پڑیں، کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں خصوصا کپاس کی قیمتی فصل کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ قلیل مالی وسائل کے باوجود حکومت نے100 ارب روپے کے لگ بھگ فوری ریلیف اور ری ہیبلیٹیشن پر خرچ کئے اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ملکر 300 ارب روپے سے زائد ری کنسٹرکشن کیلئے موجودہ مالی سال میں مختص کئے۔