سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس کا تحریری حکم نامہ، جسٹس فائز کا ویب سائٹ سے ہٹایا گیا نوٹ شامل

0
151

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف آئینی درخواستوں پر 22 جون کے جاری کیے گئے تحریری حکم نامے کے ساتھ جسٹس فائز عیسیٰ کا ویب سائٹ سے ہٹایا گیا نوٹ بھی جاری کر دیا ہے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ویب سائٹ سے ہٹایا گیا نوٹ بھی حکم نامے کا حصہ ہے جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس نے ساتھیوں کو غیر ضروری کشمکش میں الجھا دیا۔نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیشہ کوشش رہی کہ مقدمے کے ہر فریق کو یکساں نظر سے دیکھوں، کبھی رجسٹرار آفس کو کسی نوعیت کا مقدمہ لگانے یا نہ لگانے کا نہیں کہا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نوٹ میں کہا گیا کہ ہمیشہ کوشش رہی کہ ہر فیصلہ ایک ہی پیمانے سے آئین و قانون کے مطابق کروں، یہ مقدمہ سنوں تو اپنے آئینی اور قانونی موقف کی خلاف ورزی کروں گا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی معطلی کے بعد سے عدالت میں نہیں بیٹھا۔نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خود کو سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف مقدمے سے دستبردار نہیں کر رہا، آج دن تک چیف جسٹس نے میرے موقف کی تردید نہیں کی، چیف جسٹس نے اپنے ساتھیوں کو بلا وجہ غیر ضروری کشمکش میں الجھا دیا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں کہا کہ چیف جسٹس پاکستان نے تو جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا، عدالتِ عظمیٰ جیسا آئینی ادارہ فردِ واحد کی مرضی سے نہیں چل سکتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا اطلاق چیف جسٹس اور 2 سینئر ججز پر ہوتا ہے۔نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری رائے میں عدالتِ عظمیٰ کے سربراہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، سینئر ترین جج کی حیثیت سے سمت کو درست رکھنا میرا فریضہ ہے، میں جسٹس طارق مسعود کے موقف کا اور وہ میرے موقف کا احترام کرتے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں کہاکہ جسٹس طارق مسعود نے بھی شروع میں کسی بینچ میں بیٹھنے سے کنارہ کشی اختیار کی، بینچ ایسا ہو کہ کسی کو شک نہ ہو کہ مخصوص فیصلے کے لیے خصوصی بینچ بنا دیا گیا۔نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس کو 17 مئی کو 5 صفحات پر مشتمل جواب ارسال کیا، چیف جسٹس کو جواب میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا ایک بار پھر حوالہ دیا، نشاندہی کی کہ مقدمات کی سماعت کے لیے بینچ کی تشکیل چیف جسٹس اور 2 سینئر ججز پر مشتمل کمیٹی کرے گی، اس قانون پر عمل نہیں کیا گیا کیونکہ عدالتِ عظمٰی نے قانون کو جنم لینے سے پہلے ہی معطل کر دیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں کہا کہ میں نے تحریری جواب میں نشاندہی کی کہ اس قانون کے خلاف درخواستیں منظور ہوں گی یا مسترد، اگر درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں تو درمیانی مدت میں عدالت کو چلانا کیا اس قانون کی خلاف ورزی نہیں؟اپنے نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ معزز چیف جسٹس نے مجھے ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے، مخمصے سے اسی وقت نکلا جاسکتا ہے جب اس قانون کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ کریں یا حکمِ امتناع واپس لیں، جو سوال چیف جسٹس نے کیا کہ کب تک چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں[ چیف جسٹس ہی بہتر جواب دے سکیں گے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایکٹ سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کی سربراہی چیف جسٹس کر رہے ہیں، ان درخواستوں کے حوالے سے خود چیف جسٹس جواب دے سکتے ہیں کہ کب فیصلہ ہو گا، درخواستوں پر فیصلہ کیسے کریں یہ بھی چیف جسٹس کی صوابدید پر منحصر ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پوری قوم کی طرح میں بھی منتظر ہوں کہ فیصلہ جلد ہو، عدالت کی کارروائی غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو رہی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ملٹری ایکٹ کے تحت ٹرائل سے ملتے جلتے 26 مقدمات عدالتِ عظمیٰ میں پہلے سے دائر ہیں، یہ مقدمات پشاور ہائی کورٹ کے 17 اکتوبر 2019ء کے فیصلوں کے خلاف دائر کیے گئے، پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ انٹرم سینٹرز (قید خانے) سے متعلق قوانین آئین سے متصادم ہیں۔نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس فیصلے کے خلاف درخواست گزار نمبر 4 نے سابق وزیرِ اعظم کے دورِ حکومت میں اپیل دائر کی، سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 24 اکتوبر 2019ء کو حکم امتناع جاری کیا، وہ حکمِ امتناع کئی سال گزرنے کے باوجود ابھی تک برقرار ہے، اس کی آخری سماعت دسمبر 2019ء میں ہوئی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نوٹ میں کہا کہ جب ایک دفعہ کسی مقدمے کی سماعت شروع ہو جائے تو اس کا بلا تاخیر فیصلہ بھی ہوتا ہے، ساڑھے 3 سال گزرنے کے باوجود موجودہ مقدمے سے ملتے جلتے ان 26 مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔اپنے نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالتِ عظمیٰ میں روایت رہی ہے کہ بینچ کی تشکیل اور دیگر امور میں سینئر ججز سے مشورہ لیا جاتا تھا، چیف جسٹس گلزار احمد متواتر جسٹس عمر عطاء بندیال سے مشاورت کرتے تھے، ہر آئینی مقدمے میں جسٹس بندیال کو سربراہی دی یا انہیں بینچ کا حصہ بنایا، جب سے جسٹس بندیال نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا سینئر ججز سے مشاورت کی روایت ترک کر دی، نہ مجھ سے، نہ سینئر جج سردار طارق مسعود سے کوئی مشاورت کی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس بندیال نے تمام ضروری معاملات اپنی مرضی یا چیدہ اہلکاروں کے ذریعے چلائے، ججوں کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کبھی فل کورٹ اجلاس نہیں بلایا، ججوں کی فل کورٹ میٹنگ تو نہ بلائی تاہم درخواست گزاروں اور ان کے وکلاء کو ترجیح دی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نوٹ کے ساتھ 17 مئی کا چیف جسٹس کو دیا گیا جواب بھی منسلک کیا ہے۔