میجر عزیز بھٹی شہید کے58ویں یومِ شہادت پر مساجد میں قرآن خوانی اور دعاؤں کا اہتمام

0
131

اسلام آباد(این این آئی)میجر راجہ عزیز بھٹی شہید (نشانِ حیدر)کے58ویں یومِ شہادت پر مساجد میں قرآن خوانی اور دعاؤں کا اہتمام کیا گیا ۔تفصیلات کے مطابق میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کا یومِ شہادت پوری عقیدت اور احترام سے منایا گیا،دن کا آغاز مساجد میں قرآن خوانی اور دعاؤں کے ساتھ ہوا،علماء نے شہید کے درجات کی سربلندی کے لئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا۔علماء کرام نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ”زندہ قومیں اپنے محسنوں کے احسانات کو فراموش نہیں کرتیں””شہداء کا لہو ہم پر قرض ہے” ۔علماء کرام نے کہاکہ ”شہید ہمیشہ زندہ ہوتے ہیں ”شہید کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ علماء نے کہاکہ جو قومیں اپنے شہداء کی تکریم نہیں کرتیں وہ ذلیل و رسوا ہو جاتی ہیں ۔علماء نے کہاکہ شہداء کی قربانیاں ہم سب پر قرض ہیں ۔علماء نے بتایاکہ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید دھرتی کا بہادر بیٹا تھا جو ہمیشہ ہر دل میں زندہ رہے گا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق 1965 کی جنگ ہو یا کوئی بھی محاذ، قوم کے بہادر سپوتوں نے ہمیشہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اپنے خون سے پاک دھرتی کی مٹی کی آبیاری کی، ایسی ہی ایک مثال میجر راجہ عزیز بھٹی کی ہے جنہوں نے دشمن کو ایسی کاری ضرب لگائی جسے وہ صدیوں تک یاد دکھے گا، میجر راجہ عزیز بھٹی شہید جنگِ ستمبر کا وہ درخشاں ستارہ ہیں جو دورانِ جنگ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے اور دفاعِ وطن کی خاطر جان قربان کر دی۔میجر راجہ عزیز بھٹی 1928 میں پیدا ہوئے اور پاکستان بننے سے پہلے آپ پاکستان منتقل ہوئے اور ضلع گجرات کے گاؤں لادیاں میں رہائش اختیار کی۔ آپ نے 1948 میں فرسٹ پی ایم اے لانگ کورس میں شمولیت اختیار کی اور دوران ٹریننگ آپ کو اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر پاکستان ملٹری اکیڈمی کے بہترین کیڈ ٹ ہونے کے علاوہ اعزازی شمشیراور نارمن گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔جس کے بعد 1950 میں پنجاب رجمنٹ میں شامل ہوگئے۔1965 میں آپ کو میجر کے عہدے پر ترقی دی گئی اور دوران جنگ آپ لاہور کے برکی سیکٹر میں اپنی کمپنی کے ہمراہ بی آر بی نہر پر دفاعی فریضہ سر انجام دینے کیلئے تعینات تھے۔ بطورِ کمپنی کمانڈر آپ نے خود کو اگلے مورچوں پر موجود سپاہ کے ساتھ رکھا تاکہ خود دشمن پر نظر رکھ سکیں، 6 دن اور راتیں میجر عزیز بھٹی بھارتی فوج کے خلاف ڈٹے رہی اور ایسی کاری ضرب لگائی کہ طاقت کے نشے میں بدمست بھارتی فوج کی ذہنی صلاحیت مفلوج ہو کر رہ گئی، دشمن جیسے ہی برکی کی جانب قدم بڑھاتا میجر عزیز بھٹی کا توپ خانہ ایسے جواب دیتا کہ میدان میں دشمن کی صرف لاشیں ہی نظر آتی تھیں۔کمانڈنگ آفیسر کی جانب سے میجر راجہ عزیز بھٹی کو آرام کا مشورہ بھی دیا جاتا رہا تاہم پاکستان کے سپوت پر تو بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ بھارتی سورماؤں کو نہر پار نہیں کرنے دینا، 6 سے 12 ستمبر تک دشمن نے آپ کی پوزیشن پر 8 بڑے حملے کئے تاہم عزیز بھٹی کے حوصلے اور ہمت کے سامنے ہر مرتبہ ناکام ہوا، دشمن اپنے چھوٹے ہتھیاروں، ٹینکوں اور توپوں سے مسلسل آگ برساتا رہا اور آپ اس کے حملوں کا برابر جواب دیتے رہے، میجر راجہ عزیز بھٹی کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ پاکستان کی خاطر شہادت کا رتبہ پائیں جس کا اظہار وہ دوران جنگ بھی کرتے رہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش قبول فرمائی۔ 12 ستمبر کی صبح عزیز بھٹی شہید اپنے مورچے پر کھڑے دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لے رہے تھے کہ بھارتی فوج کے ٹینک کا ایک گولہ ان کے سینے پر آ کر لگا اور انہوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔