فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس،وفاقی حکومت اور تحریک انصاف نے اپنی اپنی درخواست واپس لے لیں

0
318

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان میں فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان کے 2017 کے دھرنے سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت اور تحریک انصاف نے اپنی اپنی درخواست واپس لے لیں جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل ہوتا تو سنگین واقعات نہ ہوتے،پہلے کہا گیا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، کیا اب غلطیاں ختم ہوگئیں؟ نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں ،یہ چار سال مقرر نہ ہوئیں، فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہو چکے، اس لیے کیس اس بینچ کے سامنے نہیں لگا،عدالتی وقت ضائع کیا گیا، ملک کو پریشان کیے رکھا، اب سب کہہ رہے ہیں درخواستیں واپس لینی ہیں،کیا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے؟،جو اتھارٹی میں رہ چکے، وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریرکرتے ہیں، کہا جاتا ہے ہمیں سنا نہیں گیا، اب ہم سننے کے لیے بیٹھے ہیں، آکر بتائیں، ہم پیمرا کی درخواست زیر التو رکھیں گے، کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا،سچ بولنے سے اتنا ڈر کیوں، لکھیں کہ نظرثانی درخواست کا حکم کہاں سے آیا،الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، ایک آئینی ادارہ اتنا ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہے؟، مٹی پائو کہنا ٹھیک نہیں ہوتا ، نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت، حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو،ہر ایک کا احتساب ہونا چاہیے، ہم خود سے شروع کر سکتے ہیں ، سب سچ بولنے سے اتنا کیوں ڈر رہے ہیں،تحریک لبیک نے کوئی نظر ثانی دائر نہیں کی، فیصلہ تسلیم کیا، مرحوم خادم رضوی کی اس بات پر تعریف بنتی ہے۔جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ رشید کے وکیل وزیر بن گئے ہیں تو اپنا متبادل مقرر کر کے جائیں، پہلے کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں ،یہ ریگولر بینچ ہے، خصوصی بینچ نہیں، نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں لیکن یہ چار سال مقرر نہ ہوئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہو چکے، اس لیے کیس اس بینچ کے سامنے نہیں لگا۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ہم نظر ثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ درخواست کیوں واپس لے رہے ہیں، کوئی وجہ ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کوئی خاص وجہ نہیں ہے صرف نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اس کیس میں دفاع نہیں کرنا چاہتا، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اب کیوں واپس لینا چاہتے ہیں، پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں، اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں۔اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ نظر ثانی اپیل جب دائر کی گئی اس وقت حکومت اور تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تحریری درخواست کیوں دائر نہیں کی، اٹارنی جنرل نے کہا میں اپنا بیان دے رہا ہوں۔وکیل پیمراحافظ احسان نے کہا کہ میں بھی اپنی نظرثانی اپیل واپس لے رہا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ کس کی ہدایات پر درخواست واپس لے رہے ہیں، یوٹیوب چینلز پر تبصرے کئے جاتے ہیں۔دوران سماعت پی ٹی آئی نے بھی درخواست واپس لینے کی استدعا کردی۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیار ہے؟ اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہیں، ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہوگئیں، کیا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو اتھارٹی میں رہ چکے، وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریرکرتے ہیں، کہا جاتا ہے ہمیں سنا نہیں گیا، اب ہم سننے کے لیے بیٹھے ہیں، آکر بتائیں، ہم پیمرا کی درخواست زیر التو رکھیں گے، کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا۔شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی درخواست کی پیروی جاری رکھنے کی استدعا کی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے نیا وکیل کرنا ہے یا کور دلائل دینے ہیں، اسے آئندہ سماعت پر دے دینا۔درخواست گزار اعجاز الحق کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تو صرف آئی ایس آئی کی رپورٹ پر کہا تھا کچھ سیاستدانوں نے غیر ذمہ دارانہ بیان دئیے، ہم نے کسی کا نام نہیں لیا، آپ نے خود سے اخذ کر لیا آپ کا ذکر ہے۔چیف جسٹس نے اعجازالحق کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں