اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو بری کردیا

0
159

اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اورسابق وزیر اعظم کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کیخلاف اپیلیں منظور اور احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے نواز شریف کو بری کردیا۔بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سماعت کی، سابق وزیر اعظم نواز شریف لیگل ٹیم کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔نواز شریف کے وکلا اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز روسٹرم پر موجود رہے۔نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو سیکشن 9 اے سے بری قرار دیا تھا، اس کیس میں اب بس سیکشن 9 اے 5 بچا ہے، جو آمدن سے زائد اثاثہ جات سے متعلق ہے۔عدالت نے امجد پرویز نیب آرڈیننس کا سیکشن 9 اے 5 پڑھ کر سنائی، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سیکشن 9 اے 5 کے تحت استغاثہ کو کچھ حقائق ثابت کرنا ہوتے ہیں، سیکشن 9 اے 5 کا تقاضہ ہے کہ ملزم کو پبلک آفس ہولڈر ثابت کیا جائے۔انہوں نے بتایا کہ سیکشن 9 اے 5 کا تقاضا ہے کہ ملزم کو بینامی دار ثابت کیا جائے، سیکشن 9 اے 5 کا تقاضا ہے کہ ثابت کیا جائے کہ ملزم کے اثاثے اس کے آمدن کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے۔وکیل امجد پرویز نے نیب آرڈیننس کی مختلف شقیں بھی پڑھ کر سنائیں۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے مؤقف اپنایا کہ نیب آرڈیننس میں بے نامی دار لفظ کی تعریف کی گئی ہے جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میرے خیال میں سزا معطلی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی، سزا معطلی کے فیصلے میں ہم نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا سہارا لیا تھا۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ بعد ازاں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں مزید وضاحت کی ہے، اس پر ہماری معاونت کریں۔امجد پرویز نے دلائل دئیے کہ تحقیقاتی ایجنسی نے اثاثوں کے حصول کے وقت معلوم ذرائع آمدن سے متعلق تحقیقات کرنا ہوتی ہیں، معلوم ذرائع آمدن کا اثاثوں کی مالیت سے موازنہ کرنا ہوتا ہے۔انہوں نے مؤقف اپنایا کہ یہ مقدمہ ایسا ہے، جس میں اس کے مندرجات ہی ثابت نہیں کیے گئے، انہوں نے جرم کے تمام جز ثابت کرنے تھے، نہیں کیے۔امجد پرویز نے نواز شریف کے اثاثوں کی تفصیلات بمعہ تاریخ عدالت میں جمع کرا دیں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ یہ اثاثہ جات ایک ہی وقت میں آئی ہیں یا الگ الگ؟ جس پر امجد پرویز نے بتایا کہ 1993 سے 1996 کے درمیان یہ پراپرٹیز آئی ہیں، پورے ریفرنس میں نواز شریف کا ان پراپرٹیز سے تعلق لکھا ہی نہیں ہوا۔امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی، نیب کی رپورٹس ہوں، ریفرنس ہو، بیان ہو، کسی جگہ بھی ان پراپرٹیز کی مالیت نہیں لکھی گئی، کوئی صفحہ ایسا موجود نہیں جو ثابت کرے کہ نواز شریف کا ان پراپرٹیز سے کوئی تعلق ہے۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے مؤقف اپنایا کہ واجد ضیا نے بھی جرح کے دوران مانا کہ میرے پاس نواز شریف کا ان پراپرٹیز سے تعلق جوڑنے کا کوئی ثبوت نہیں۔چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال اٹھایا کہ کیا ان تمام دستاویزات میں پراپرٹیز کے حصول کی تاریخ اور ان کی مالیت موجود نہیں؟ جس پر امجد پرویز نے بتایا کہ کچھ دستاویزات میں ہے لیکن ان پراپرٹیز کا نواز شریف سے تعلق ثابت کرنے کے حوالے سے کچھ موجود نہیں۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ سب سے اہم بات ان پراپرٹیز کی آنرشپ کا سوال ہے، نہ تو زبانی، نہ دستاویزی ثبوت ہے کہ یہ پراپرٹیز کبھی نواز شریف کی ملکیت میں رہی ہوں۔انہوں نے دلائل دیے کہ استغاثہ کو یہ ثابت کرنا تھا کہ مریم نواز، حسین نواز اور حسن نواز، نوازشریف کی زیر کفالت تھے، بچوں کے نواز شریف کی زیر کفالت کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں۔امجد پرویز نے کہا کہ ان تمام چیزوں کو استغاثہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے، ان چیزوں کا بار ثبوت دفاع پر کبھی منتقل نہیں ہوتا، کوئی ثبوت نہیں کہ پراپرٹیز نواز شریف کی ملکیت یا تحویل میں رہیں، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال پوچھا کہ یہ سارا پراسیکیوشن کا کام ہے؟ وکیل نے بتایا کہ جی بالکل یہ سب استغاثہ نے ثابت کرنا ہوتا ہے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب سے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ نوٹ کر رہے ہیں؟ یہ بڑی اہم باتیں کر رہے ہیں، جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ جی سر میں نوٹ کر رہا ہوں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ آپ کے ہاتھ میں تو قلم ہی نہیں ہے جس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔امجد پرویز نے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ استغاثہ کو پبلک آفس اور جرم میں گٹھ جوڑ بھی ثابت کرنا ہوتا ہے، استغاثہ کو ثابت کرنا ہے کہ پبلک آفس کیسے بینامی جائیداد بنانے کے لیے استعمال ہوا۔امجد پرویز نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔امجد پرویز نے کہا کہ استغاثہ کو مندرجات ثابت کرنے ہوتے ہیں، اس کے بعد بار ثبوت ملزم پر منتقل ہوتا ہے۔