لاپتہ افراد کیس سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے، چیف جسٹس

0
166

اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اعترازاحسن کے وکیل شعیب شاہین سے جبری گمشدگی کے کیس میں سوال کیا ہے کہ لاپتا افراد کا کیس سنجیدہ نوعیت کا ہے، اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے، عدالت کا مذاق بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، کیا شیخ رشید کو معصوم افراد کی فہرست میں شامل کریں؟،لاپتہ افراد کا مسئلہ اس وقت حل ہو گا جب ہم سب مل کر اسے حل کریں گے، مسئلہ اس وقت حل ہوگا جب ہم سب اپنی اپنی ذمے داریاں نبھائیں گے،پارلیمان کو قانون سازی کرنیکا حکم نہیں دے سکتے،آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟۔ منگل کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جبری گمشدگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔اعتزاز احسن سمیت متعدد افراد نے جبری گمشدگیوں کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ اس وقت حل ہو گا جب ہم سب مل کر اسے حل کریں گے، مسئلہ اس وقت حل ہوگا جب ہم سب اپنی اپنی ذمے داریاں نبھائیں گے، نوٹس تو نہیں کیا لیکن اٹارنی جنرل آئیں اور یہاں باتیں سنیں تو اچھا ہو گا۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے سکتی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے، ہم پارلیمان کو قانون سازی کرنے کا حکم نہیں دے سکتے، قانون بن گیا ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، اسے پڑھ لیں، ہم سمجھتے تھے کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ اہم ہے تو کیس لگا دیا۔لاپتہ افراد کے درخواست گزار خوشدل خان ملک نے کہا کہ عدالت حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بنا تو ہوا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کون سا کمیشن بنا ہے؟درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کمیشن بنایا گیا، اس کمیشن نے اب تک کچھ نہیں کیا، عدالت حکومت سے پوچھے 50 سال سے لاپتہ افراد پر قانون سازی کیوں نہیں کی؟چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ہماری اپیل پر رجسٹرار کے اعتراضات ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آفس کی جانب سے لگائے گئے اعتراضات ختم کرتے ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی، صرف قانون کالعدم کر سکتی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شعیب شاہین سے استفسار کیا آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں؟وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لطیف کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا ہے، ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کیے گئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراضات کو خارج کر کے درخواستیں سن رہے ہیں کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیر موجودگی میں کچھ ہوا، میں نے واپس آتے ہی یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی ہیں، آپ ذاتی بات نہ کریں، لاپتہ افراد سے متعلق بات کرنے ہے تو کریں۔وکیل شعیب شاہین نے شیخ رشید، فرخ حبیب، صداقت عباسی اور اعظم خان سے متعلق دلائل دئیے۔چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے سوال کیا کہ آپ ان کے کیس کیسے لڑ رہے ہیں، ہم آپ کو سیاسی باتیں کرنے نہیں دیں گے، ابھی تک آپ نے ایک سیاسی جماعت کی باتیں کی ہیں، سیاسی باتیں نہ کریں، یہ میڈیا پر جا کر کر لینا، ہم یہاں آپ کو سیاسی باتیں نہیں کرنے دیں گے، ہم آپ کو اپنا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دیں گے، جب آپ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی بات کریں گے تو سوال بھی اٹھیں گے، ہم آپ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی اجازت نہیں دیں گے،