کسی شخص کو ایک بار سزا مل گئی تو بات ختم کیوں نہیں ہوجاتی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سزا کے بعد کبھی انتخابات نہ لڑسکے؟ ،سپریم کورٹ

0
165

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس میں سوال اٹھایا ہے کہ کسی شخص کو ایک بار سزا مل گئی تو بات ختم کیوں نہیں ہوجاتی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سزا کے بعد کبھی انتخابات نہ لڑسکے؟ ،اسلامی معیار کے مطابق تو کوئی بھی اعلیٰ کردار کا مالک ٹھہرایا نہیں جا سکتا، ہم تو گناہ گار ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں، آرٹیکل 62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں ،یہ عدالت نے دی۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجربینچ سماعت کررہا ہے جس میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی ہیں۔سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل! آپ کا موقف کیا ہے؟ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے یا سپریم کورٹ کے فیصلے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت سے درخواست ہے کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے، الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیونکہ یہ وفاق کا بنایا ہوا قانون ہے۔درخواست گزار امام بخش قیصرانی کے وکیل ثاقب جیلانی روسٹرم پر آئے۔میر بادشاہ قیصرانی کے خلاف درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کر دی اور کہا کہ میں نے 2018ء میں درخواست دائر کی جب 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا، اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل ہو چکی ہے، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 آنے پر تاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کر رہا۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن ایکٹ کی ترمیم کو کسی نے چیلنج کیا؟ تمام ایڈووکیٹ جنرلز اٹارنی جنرل کے موقف کی تائید کرتے ہیں یا مخالفت؟اس موقع پر تمام ایڈووکیٹ جنرلز نے اٹارنی جنرل کے موقف اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کر دی۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 میں فرق کیا ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 62 ممبران کی اہلیت جبکہ 63 نااہلی سے متعلق ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 62 کی وہ ذیلی شقیں مشکل پیدا کرتی ہیں جو کردار کی اہلیت سے متعلق ہیں، کسی کے کردار کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟ کیا اٹارنی جنرل اچھے کردار کے مالک ہیں؟ اس سوال کا جواب نہ دیجیے گا، صرف مثال کے لیے پوچھ رہا ہوں، سپورٹرز کہیں گے کہ آپ اعلیٰ کردار کے مالک ہیں جبکہ مخالفین بد ترین کردار کہیں گے، اسلامی معیار کے مطابق تو کوئی بھی اعلیٰ کردار کا مالک ٹھہرایا نہیں جا سکتا، ہم تو گناہ گار ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں، آرٹیکل 62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ عدالت نے دی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تاحیات نااہلی کی ڈکلیئریشن اپنی جگہ قائم ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہو چکا اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں رد و بدل ممکن ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی؟ کیا آئین میں جو لکھا ہے اسے قانون سازی سے بدلا جا سکتا ہے؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی میعاد کا ذکر نہیں ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ جب تک عدالتی فیصلہ موجود ہے نااہلی تاحیات رہے گی۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ قتل اور غداری جیسے سنگین جرم میں کچھ عرصے بعد الیکشن لڑ سکتے ہیں، معمولی وجوہات کی بنیاد پر تاحیات نااہلی غیر مناسب نہیں لگتی؟جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ ایک شخص 20 سال بعد سدھر کر عالم بن جائے تو کیا اس کا کردار اچھا ہو جائے گا؟ اگر پہلے کسی نے ملک مخالف تقریر کر دی تو وہ آج بھی انتخابات نہیں لڑ سکتا؟چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اگر کوئی شخص توبہ کر کے عالم یا حافظ بن جائے تو بھی برے کردار پر تاحیات نااہل رہے گا؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 18 ویں آئینی ترمیم میں ڈیکلیئریشن کا مقصد آر او کے فیصلے پر اپیل کا حق دینا تھا۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آرٹیکل 62 ون ڈی پڑھیں۔اٹارنی جنرل نے پڑھ کر بتایا کہ 62 ون ڈی ہے کہ اچھے کردار کا مالک، اسلامی احکامات کی خلاف ورزی نہ کرے تو اہل ہے