خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی

0
173

راولپنڈی (این این آئی)راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی۔منگل کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے زبانی مختصر فیصلہ سنایا۔فیصلہ سنانے کے وقت بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔اس موقع پر بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو 342 کا بیان کمرہ عدالت میں ریکارڈ کرنے کے لیے سوالنامہ دیا گیا۔بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے بیان دیا کہ ہمارے وکلا موجود نہیں ہم کیسے بیان ریکارڈ کرائیں گے؟جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی سے کہا کہ آپ کے وکلا حاضر نہیں ہو رہے، آپ کو اسٹیٹ ڈیفنس کونسل فراہم کی گئی۔وکلائے صفائی نے سوال کیا کہ ہم جرح کر لیتے ہیں۔جج نے وکلائے صفائی سے کہا کہ آپ نے مجھ پر عدم اعتماد کیا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز خصوصی عدالت میں زیر سماعت سائفر کیس میں رات گئے تک جاری رہنے والی کارروائی کے دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف 25 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے۔سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ کے خلاف سائفر کیس میں تمام 25 گواہان کے بیانات پر جرح مکمل لی گئی تھی، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو سوالنامہ دیاگیا جس میں 36 سوالوں کے جواب مانگے گئے تھے۔خیال رہے کہ 23جنوری کو خصوصی عدالت میں زیر سماعت سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف 25 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے۔سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں سابق وزیر اعظم اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں تھے۔پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال)اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکرٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ)میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے۔مقدمے میں کہا گیا کہ ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی۔ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔مزید بتایا گیا کہ مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز)تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے۔ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔ایف آئی اے میں درج مقدمے میں کہا گیا کہ مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا۔