کیا وجہ ہے ایک سال گزرنے کے باوجود 9 مئی کے مجرموں کو سزا نہ مل سکی، وزیراعظم

0
51

اسلام آباد (این این آئی)وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود 9 مئی کے مجرموں کو اب تک سزا نہ مل سکی، ان کو کٹہرے میں نہ لایا جاسکا، ان کو آئین اور قانون کے مطابق سزائیں نہ مل سکیں،9 مئی کے واقعے کے دلخراش مناظر پوری قوم نے دیکھے ، یہ پاکستان کے عوام کو تقسیم کرنے اور لڑانے کی ایک منظم سازش تھی، قوم اور تاریخ سانحہ 9 مئی کے کرداروں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ یہ ہے وہ چبھتا ہوا سوال جو پوری قوم پوچھتی ہے، وہ تمام ادارے جن کے لیے یہ ذمہ داری فرض کی گئی ہے، ان سے پوچھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے حوالے سے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں، پاکستان کی تاریخ میں یہ ایک سیاہ دن تھا، ایک ایسا دن جب غازیوں کی یادگاروں پر جو خوفناک حملے ہوئے، وہ مناظر آج بھی پوری قوم کے سامنے ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ پارلیمنٹ کی اس عمارت میں کابینہ کے اجلاس کا مقصد یہی ہے کہ یہ ایوان قوم کی ملکیت ہے اور آپ کے حقوق کی ترجمانی کا مرکز ہے، آج ہم پارلیمنٹ کی اس بلڈنگ سے پوری قوم کو یکسوئی اور اتحاد کے ساتھ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے شہدا، ہیروز اور ان کے اہل خانہ کو نہ صرف قیامت تک یاد رکھیں گے بلکہ ان کے لیے والہانہ یکجہتی کا پیغام دیتے ہیں۔انہوںنے کہاہک یاد رکھنا چاہیے کہ یہ حملے کیوں کیے گئے، اس لیے کہ مئی 2023 میں پی ڈی ایم کی حکومت پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے سر توڑ کوشش کررہی تھی، شاید یہ حملے نہ ہوتے اگر یہ کٹھ پتلی حکومت کو ایک آئینی طریقے سے ہٹایا نہ جاتا، شاید یہ حملے نہ ہوتے کہ اگر پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ جو تعلقات کو خرابی کے حوالے سے آخری حد تک پہنچا دیا گیا تھا، اس کو پی ڈی ایم کی حکومت پوری یکسوئی کے ساتھ دوبارہ بہتر کرنے میں دن رات کوشش کررہی تھی، اس کے لیے یہ حملے کیے گئے کہ تعلقات دوبارہ استوار نہ ہوں۔وزیر اعظم نے کہا کہ 9 مئی 2023 شاید کو یہ حملے نہ کیے جاتے کہ اگر خانہ کعبہ کی ماڈل کی گھڑی اور زیورات اور زمینوں کی خرید و فروخت اور کرپشن کی بھرمار تھی، اگر اس کا نوٹس پی ڈی ایم کی حکومت نہ لیتی، تو شاید یہ حملہ نہ کیا جاتا۔شہباز شریف نے کہا کہ شاید یہ حملہ نہ کیا جاتا اگر 190 ملین پاؤنڈ میں جو بدترین خیانت کی تھی، جو ایک قومی جرم تھا، اگر پی ڈی ایم کی حکومت اس کا نوٹس نہ لیتی تو شاید یہ حملے نہ کیے جاتے۔انہوں نے کہا کہ شاید یہ حملے نہ کیے جاتے اگر بعض اہم عہدوں پر میرٹ سے ہٹ کر پی ڈی ایم کی حکومت تقرریاں کر دیتی۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ شاید یہ حملہ نہ ہوتا اگر چیف الیکشن کمشنر کا آفس فارن فنڈنگ کا نوٹس نہ لیتا۔وزیراعظم نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ 9 مئی کو نہ صرف پاکستان کے خلاف بغاوت کی گئی بلکہ ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت کی گئی، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی جمہوری ملک، کوئی آئین اور قانون پر چلنے والا ملک اپنے شہدا کے ساتھ یہ سنگین مذاق اور ان کے خلاف جو بدترین زبان استعمال کی گئی، اور جس طرح جتھے ان پر حملہ آور ہوئے، تو کیا کوئی ملک برداشت کر سکتا تھا؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا جواب صاف نفی میں ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے سوال اٹھایا کہ امریکا، برطانیہ میں فسادیوں کو چاہے وہ 2007 ہو، چاہے وہ 2021 میں وہاں پر حملے ہوئے، کیا انہیں کھلی چھٹی دی گئی، کیا وہاں پر کالم نگاروں اور دانشوروں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا، کیا ان کو سزائیں نہیں دی گئیں، میں سمجھتا ہوں کہ ایسے فسادیوں کو جو قوم کے خلاف بلاسوچے سمجھے اور اپنی ذات کے لیے جہاں پر بھی حملہ آور ہوئے، قانون نے ان کو اپنی گرفت میں لیا۔انہوںنے کہاکہ سب سے بڑی مثال بابائے قوم قائداعظم کی ہے کہ ان کی تاریخی جدوجہد تھی، ان کی جو محنت تھی، کوئی ایسی مثال ملتی ہے کہ جہاں پر بدزبانی، گالم گلوچ یا اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ قائد اعظم کی تحریک، ان کی لیڈرشپ ان تمام چیزوں سے بلند ہے اور وہ پوری قوم کے سامنے مثال ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ دیکھ لیں کہ کیا کیا کڑے امتحانات سے سیاستدان نہیں گزرے، کتنی کتنی عظیم سیاستدانوں نے قربانیاں نہیں دیں، جیلیں برداشت کیں، ہتھکڑیاں، مگر پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ماسوائے 9 تاریخ کے واقعے جب کبھی سیاستدان اس طرح کے واقعات سے گزرے تو کسی نے کہا کہ پاکستان کھپے، اور کسی نے کہا کہ تمام تر مشکلات اور ظلم کے پہاڑ کو برداشت کیا اور کہا کہ میں پاکستان کے خلاف ایک لفظ بھی بولنا تو دور کی بات میں سوچ بھی نہیں سکتا، یہ ہیں وہ مثالیں جو پاکستان کی حالیہ تاریخ اس سے بھری پڑی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آج ہم یہاں پر کابینہ کا خصوصی اجلاس بلایا ہے