اسلام آباد،پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان جاں بحق،دہشتگردی کا مقدمہ درج، پانچ اہلکار گرفتار

0
312

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک 22 سالہ نوجوان جاں بحق ہوگیا ، پولیس نے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے 5 اہلکاروں کو حراست میں لے لیا۔ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق پولیس کو رات کو کال موصول ہوئی کہ گاڑی میں سوار ڈاکو شمس کالونی کے علاقہ میں ڈکیتی کی کوشش کررہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) پولیس کے اہلکار جو علاقہ میں گشت پر تھے انہوں نے مشکوک گاڑی کا تعاقب کیا اور کالے شیشوں والی اس مشکوک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی۔ترجمان کے مطابق پولیس نے متعدد مرتبہ جیـ10 تک گاڑی کا تعاقب کیا، تاہم اس کے نہ رکنے پر گاڑی کے ٹائروں پر فائر کیے جس میں سے بدقسمتی سے 2 فائر گاڑی کے ڈرائیور کو لگ گئے جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ انہوںنے کہاکہ آئی جی اسلام آباد نے واقعے کا نوٹس لے لیا جبکہ ڈی آئی جی آپریشنز کی زیرنگرانی ایس ایس پی سی ٹی ڈی کی سربراہی میں ایس پی صدر اور ایس پی انویسٹی گیشن پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دے دیں۔بتایا گیا کہ واقعہ میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا۔دوسری جانب وفاقی دارالحکومت میں نوجوان کے قتل کا مقدمہ والد کی مدعیت میں تھانہ رمنا میں درج کرلیا گیا۔مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (قتل) کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعہ 7 بھی لگائی گئی ہے۔مذکورہ مقدمے میں مدثر اقبال، شکیل احمد، محمد مصطفی، سعید احمد اور افتخار احمد نامی اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے۔نوجوان کے والد ندیم یونس ستی نے مقدمے میں مؤقف اپنایا کہ میرا جواں سالہ بیٹا اسامہ ندیم ستی میرے ساتھ جیـ10 مرکز میں کاروبار کرتا تھا اور وہ 2 جنوری کی رات تقریباً 2 بجے اپنے دوست کو ایچـ11 نزد نسٹ یونیورسٹی چھوڑنے گیا تھا تو مدثر مختار، شکیل احمد، سعید احمد، محمد مصطفیٰ اور افتخار احمد نامی پولیس اہلکاروں جن سے ایک دن قبل میرے بیٹے کی تلخ کلامی اور جھگڑا ہوا تھا، جس کا ذکر میرے بیٹے نے مجھ سے کیا تھا۔والد نے ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد پولیس کے ان ملازمین نے میرے بیٹے کو دھمکی دی تھی کہ تمہیں مزہ چکھائیں گے، جس کے بعد رات دوبجے ان پولیس اہلکاروں نے میرے بیٹے کی گاڑی کا پیچھا کیا اور ٹکر ماری جس کے بعد انہوں نے روک کر مین شہراہ پر گاڑی پر 17 گولیاں چاروں اطراف سے چلائیں جس سے میرے بیٹے کی جان چلی گئی۔انہوں نے ایف آئی آر میں دعویٰ کیا کہ میرے بیٹے کی جان معمولی تلخ کلامی کی وجہ سے لی گئی اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ میرے بیٹے کو ان پولیس کی وردی میں موجود ‘درندوں’ نے ناحق قتل کیا