سپریم کورٹ نے صحافیوں کو حراساں کرنے سے متعلق ازخودنوٹس پر دو رکنی بنچ کے حکمنامے پر عملدرآمد روک دیا

0
159

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحافیوں کو حراساں کرنے سے متعلق ازخودنوٹس پر دو رکنی بنچ کے حکمنامے پر عملدرآمد روک دیا جبکہ عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل، وائس چیئرمین پاکستان بار اور معاونت کیلئے صدر سپریم کورٹ بار کو بھی نوٹس جاری کر دیا ۔تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندو خیل پر مشتمل دو رکنی بنچ نے جمعہ کو صحافیوں پر مبینہ حملوں اور مقدمات کے خلاف درخواست پر از خود نوٹس لیا تھا اور کیس کو اسی بنچ کے سامنے 26 اگست کو فکس کرنے کا حکم دیا تھا تاہم سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پیر کو اس ازخودنوٹس کا جائزہ لیتے ہوئے اہم سوال اٹھا دیا کہ ازخودنوٹس کا اختیار کس انداز میں استعمال ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل، وائس چیئرمین پاکستان بار اور معاونت کیلئے صدر سپریم کورٹ بار کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔سپریم کورٹ نے کہا کہ صرف اس نکتے کا جائزہ لینگے کہ کیا ازخودنوٹس اس انداز میں ہو سکتا ہے اور صحافیوں کے مسائل کا اس کارروائی میں جائزہ نہیں لینگے، دو رکنی بنچ نے صحافیوں کی درخواست پر ازخودنوٹس لیا تھا، درحقیقت بنچ زیرالتواء مقدمہ میں کسی نقطے پر ازخودنوٹس لے سکتا ہے تاہم موجودہ صورتحال میں کوئی مقدمہ زیر التواء نہیں تھا، بنچز عمومی طور پر چیف جسٹس کو ازخودنوٹس کی سفارش کرتے ہیں، کیونکہ بنچ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار ہے تاہم دو رکنی بنچ نے براہ راست درخواست وصول کرکے نوٹس لیا اور 26 اگست کو سماعت مقرر کرنے کا حکم دیا، حالانکہ موجودہ ہفتے میں حکم دینے والا بنچ دستیاب ہی نہیں، اگر خصوصی بنچ تشکیل دینا ہو تو چیف جسٹس دیتے ہیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ صحافیوں کی درخواست پر شفاف انداز میں کارروائی چاہتے ہیں، ایسی کارروائی نہیں چاہتے جو کسی فریق کیلئے سرپرائز ہو، عدالت سوموٹو اور مکمل انصاف کا اختیار سسٹم کے تحت استعمال کرتی ہے، ماضی میں بھی کچھ مقدمات پر معمول سے ہٹ کر ازخودنوٹس ہوئے، دو رکنی بنچ نے وفاقی اداروں اور سرکاری وکلاء کو نوٹس جاری کئے تھے۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ صحافیوں کا کیس حساس ہے خوشی ہوئی کہ انہوں نے رجوع کیا، اس بات پر افسوس ہے کہ صحافیوں نے عدلیہ پر بطور ادارہ بھروسہ نہیں کیا، رجسٹرار آفس نے قائم مقام چیف جسٹس کو معاملے سے تحریری طور پر آگاہ کیا کرتے ہوئے کہا جو انداز اختیار ہوا وہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق نہیں