واشنگٹن(این این آئی )نائن الیون انکوائری کمیشن کے سربراہ تھامس کین نے کہا ہے کہ 9/11 کے حملے کو روکا جا سکتا تھا۔ سعودی عرب کا نائن الیون کے واقعات میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ میں نے وہ انکوائری رپورٹ جو شائع نہیں کی گئی حرف بہ حرف پڑھی ہے۔ اس میں ایسی کوئی بات نہیں کی گئی کہ سعودی عرب کا گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں میں کوئی کردار ہے۔برطانوی اخبار سے گفتگوکرتے ہوئے کین نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگرسابق امریکی صدر جارج ڈبلیوبش اور ان سے پہلے سابق صدر بل کلنٹن نے مختلف طریقے سے کام کیا ہوتا تو دہشت گردانہ حملوں کو روکا یا ناکام بنایا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کوئی ایسی چیز نہیں ملی جو حملوں کے بارے میں تمام شائع شدہ اورغیر شائع شدہ دستاویزات میں سعودی عرب کو مجرم بناتی ہو۔تھامس کین جو انکوئری کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہونے سے پہلے نیو جرسی میں ڈریو یونیورسٹی کے صدر تھے نے مزید کہا کہ کمیٹی کی حتمی رپورٹ نے واضح کیا کہ دونوں سابقہ صدور نے معقول فیصلے کیے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ یہ کہ بہت سے فیصلے مختلف طریقے سے کیے جا سکتے تھے۔کین نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ سعودی حکومت بطور ایک ادارہ یا کوئی سینیر ریاستی سعودی عہدیدار انفرادی طور پر القاعدہ کو مالی اعانت فراہم کرنے میں ملوث رہا ہو۔ میں نے وہ رپورٹ پڑھی ہے مگر مجھے اس میں سعودی عرب کو قصور وار قرار دینے کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔کین نے مزید کہا کہ انہیں سعودی عرب کے مقابلے میں ایران کے ممکنہ طورپر نائن الیون حملوں میں ملوث ہونے کے بارے میں مزید معلومات ملی ہیں۔ کمیٹی کے ارکان ہر مشکوک لائن کا پیچھا کرنے کے لیے پرعزم ہیں چاہے کتنا ہی سفاکانہ یا ناممکن ہو۔کین نے کہا کہ ہم نے نائن الیون حملوں کے بارے میں ہر مشکوک راستے کا سراغ لگایا یہاں تک کہ سازشی تھیوری کا بھی سراغ لگایا گیا۔جو بات درست اور سچھ تھی اسے رپورٹ میں شامل کیا گیا۔ جو غلط نکلی اسے خارج کر دیا گیا۔ اور پھر ہر سازشی تھیوری کی الگ الگ تحقیق کی اور ہم نے ان میں سے بیشتر کو چھوڑ دیا۔