مقبوضہ جموں وکشمیر کی نصف آبادی ذہنی دبائو کا شکار ہے’رپورٹ

0
184

اسلام آباد(این این آئی)گزشتہ روز ذہنی صحت کا عالمی دن منایا گیا جبکہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں کئی دہائیوں سے جاری ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے کشمیری عوام جسمانی اور ذہنی طورپر بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے اس دن کے حوالے سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں فرانس میں قائم بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی غیر سرکاری تنظیم” ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز ”کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تقریبا 18لاکھ کشمیری یعنی بالغ افراد کی نصف تعداد ذہنی دبائو کا شکار ہے۔ ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے یہ تخمینہ 2015 میں 5ہزار600 گھروں کا سروے کرنے کے بعد لگایاتھی جبکہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگست 2019 کے بعدجب بھارت نے مقبوضہ جموںو کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی، یہ تعداد مہینوں تک جاری رہنے والے فوجی محاصرے اور تلاشی کی مسلسل کارروائیوں کی وجہ سے کہیں زیادہ ہے۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے سروے سے پتہ چلا ہے کہ مقبوضہ جموںوکشمیرکی کل آبادی کے 45 فیصد افراد میںذہنی پریشانی کی نمایاں علامات پائی جاتی ہیں۔ذہنی صحت کا عالمی دن پہلی بار 10 اکتوبر 1992 کو منایا گیا۔ اسے اقوام متحدہ کے اس وقت کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل رچرڈ ہنٹر نے عالمی فیڈریشن برائے ذہنی صحت کے لئے سالانہ سرگرمی کے طور پر شروع کیا۔ یہ دن ہر سال 10 اکتوبر کو سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی سفاکیت کی وجہ سے ذہنی پریشانی کی علامات میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جنیوا میں قائم میڈیسنز سینز فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) اور سرینگر میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز (آئی ایم ایچ اے این ایس) کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموںوکشمیر میںذہنی صحت کا بحران ایک وبا کی سطح تک پہنچ گیا ہے۔کے ایم ایس کی رپورٹ کے مطابق 5 اگست 2019 سے کشمیر میں ذہنی دبائو،اضطرابی کیفیت اور نفسیاتی امراض میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کشمیریوں کی اکثریت جو پیلٹ گنوں کا نشانہ بنتی ہے، اب ڈپریشن اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ کشمیریوں کی جسمانی اور ذہنی پریشانیوں کو کم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ تنازعہ کشمیر کا منصفانہ حل تلاش کیا جائے۔