دسمبر میں مردم شماری کے حتمی نتائج کا اعلان کردیں گے، اسد عمر

0
227

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے ملک میں مردم شماری کا ٹائم ٹیبل منظور کرلیا ہے جس کے مطابق دسمبر میں حتمی نتائج کا اعلان کردیا جائے گا، مردم شماری میں فوج کا کردار صرف سیکیورٹی کا ہوگا۔میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ مئی جون میں مردم شماری کا پائلٹ ٹیسٹ ہوگا، اگست اور ستمبر میں فیلڈ ورک جبکہ نومبر میں سیمپلز کا آڈٹ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ آئین میں یہ طے ہے کہ تازہ ترین مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں ہوں گی، 2018 کے الیکشن سے قبل 2017 میں بھی یہی ہوا تھا، کچھ دوستوں کی خواہش کے برعکس 18اگست 2023 تک تو عمران خان وزیراعظم رہیں گے اس لیے جنوری کے بعد 6 سے 7 مہینوں کے اندر تازہ مردم شماری کے مطابق آئندہ الیکشن کے لیے حلقہ بندیوں کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے مطابق وسائل کی تقسیم کی جاتی ہے، اتنے اہم کام کے لیے ضروری ہے کہ دنیا میں موجود بہترین وسائل اور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جائے۔انہوںنے کہا کہ سب کو ساتھ ملا کر اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مردم شماری کررہے ہیں تاکہ کوئی تنازع پیدا نہ ہو، اس کے باوجود ایسا کچھ ہوا تو اس کی نوعیت کے مطابق اس سے نمٹیں گے۔مردم شماری کی لاگت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 10 ارب روپے مالیت کا ہارڈویئر اور سافٹ ویئر خریدا جارہا ہے، سیکیورٹی پر آنے والی لاگت کا تخمینہ ابھی طے ہونا باقی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ نیشنل سینسس کوآرڈینیشن سینٹر کے قیام کا آئیڈیا نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) سے اسی لیے آیا کیونکہ این سی او سی نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے صحت سے متعلق معلومات کی فوری دستیابی ممکن بنائی، اسی طرح معاونت کے لیے وفاق اور صوبے ایک ہی جگہ پر موجود ہوتے تھے۔انہوں نے کہا کہ جب تمام معلومات ایک ہی جگہ اکھٹی کرلی جائے اور تمام فیصلے وفاق اور صوبے کی مشاورت سے ہورہے ہوں تو ایک دوسرے پر اعتماد بھی بڑھتا ہے، مردم شماری کے لیے یہ انتہائی ضروری چیز ہے اس لیے یہی طریقہ کار نیشنل سینسس کوآرڈینیشن سینٹر میں اپنایا جائے گا۔وفاقی اسد عمر نے کہا کہ نیشنل سینسس کوآرڈینیشن سینٹر میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہوگی اور ویب سائٹ کے ذریعے اس حوالے سے تمام معلومات عوام کو فراہم کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ اسمبلی اور پارلیمان کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے گا، اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین سے بھی میری گزارش ہے کہ کہ اسے ایجنڈے پر رکھیں