ڈھاکہ (این این آئی)بنگلہ دیش میں کئی ہفتوں سے سرکاری ملازمتوں کیلئے کوٹہ سسٹم کیخلاف ہونے والے شدید مظاہروں اور پرتشدد احتجاج کے بعد وزیراعظم حسینہ واجد نے استعفیٰ دیدیا اور وہ ڈھاکا میں اپنی رہائش گاہ سے بھارت پہنچ گئیں جہاں سے وہ فن لینڈ جائیں گی جبکہ بنگلہ دیش کے آرمی چیف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے حکومتی سربراہ کے استعفے کی تصدیق کرتے ہوئے ملک میں عبوری حکومت قائم کرنے کا اعلان کردیا۔
تفصیلات کے مطابق بنگلہ دیش میں جاری حکومت مخالف مظاہروں میں جھڑپوں کے دوران مرنے والوں کی مجموعی تعداد 300 سے تجاوز کر چکی ہے۔عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے استعفیٰ دے دیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حسینہ واجد اور ان کی بہن گنابھابن (وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ) سے بھارت چلی گئی ہیں، حسینہ واجد تقریر ریکارڈ کرنا چاہتی تھی تاہم انہیں ایسا کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، بنگلا دیش کے آرمی چیف نے وزیر اعظم حسینہ واجد کو مستعفی ہونے کے لیے 45 منٹ کی ڈیڈ لائن دی تھی۔دلی میں بنگلادیشی ہائی کمیشن نے شیخ حسینہ کے استعفے کی تصدیق کردی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ بنگلا دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد اور ان کی بہن کو سرکاری رہائش گاہ سے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
بعد ازاں بنگلہ دیش کے آرمی چیف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش کو مخلوط حکومت کے ذریعے چلایا جائے گا، عوام کے تمام مطالبات تسلیم کیے جائیں گے۔بنگلہ دیشی آرمی چیف نے مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی تحقیقات کا اعلان بھی کیا اور جنرل وقارالزمان نے کہا کہ عوام فوج پر بھروسہ رکھیں، حالات بہتر ہوجائیں گے، ہم بنگلہ دیش میں امن واپس لائیں گے۔
انھوں نے احتجاجی مظاہرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھ تعاون کریں، ہم ساتھ مل کر ایک بہتر مستقبل کی سنگِ بنیاد رکھیں گے۔انہوں نے سرکاری ٹیلی ویژن پر قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم ایک عبوری حکومت تشکیل دیں گے ۔
بنگلہ دیش کے میڈیا نے آرمی چیف کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ نتیجہ خیز بات چیت کے بعد ہم نے عبوری حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے، ہم صورتحال کو حل کرنے کے لیے اب صدر محمد شہاب الدین سے بات کریں گے۔
دوسری جانب ملک بھر میں غیر معینہ مدت کے لئے کرفیو نافذ کر دیاگیا، ریلوے سروسز غیر معینہ مدت کیلئے معطل اور گارمنٹ فیکٹریاں بھی بندکر دی گئیں۔ حالیہ احتجاج کے دوران دوسری بار حکومت نے ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ سروسز بند کر دیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک اور واٹس ایپ سروس بھی معطل رہی۔
دریں اثناء مظاہرین نے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا، جنہیں قابو کرنے کے لیے سڑکوں پر پولیس اور فوج کی بڑی تعداد موجودتھیں۔بنگلہ دیشی میڈیا نے دارالحکومت میں وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ میں دوڑتے ہوئے ہجوم کی تصاویر نشر کیںجو جشن منا رہے تھے۔
بنگلہ دیشی صحافی یاسر عرفات نے بتایا کہ گنابھابن محل کے اندر 1500 سے زیادہ افراد موجود تھے، وہ فرنیچر اور شیشے توڑ رہے تھے۔اس سے قبل میڈیا کے مطابق وزیر اعظم کے قریبی معاون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صورتحال ایسی ہے کہ یہ بھی ایک امکان ہے، لیکن میں نہیں جانتا کہ یہ کیسے ہوگا؟ان قریبی ذرائع نے بتایا تھا کہ وہ محفوظ مقام پر منتقل ہونے کے لیے ڈھاکا محل سے روانہ ہو گئی ہیں۔
دوسری جانب بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے صاحبزادے نے ملکی سکیورٹی فورسز پر زور دیا کہ وہ ان کی والدہ کے اقتدار پر کسی بھی طرح کے قبضے کی کوشش کو روکیں۔امریکا میں مقیم صجیب وازید جوئی نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں کہا کہ آپ کا فرض ہے کہ ہم اپنے لوگوں اور ہمارے ملک کو محفوظ رکھیں اور آئین کو برقرار رکھیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر منتخب حکومت کو ایک منٹ بھی اقتدار میں نہ آنے دیں، یہ آپ کا فرض ہے۔
دوسری جانب بنگلا دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کے مستعفی ہونے پر ملک بھر میں جشن کا سماں دیکھاگیا۔رپورٹ کے مطابق شیخ حسینہ واجد کے مستعفی ہونے پر بنگلا دیش کے دارالحکومت ڈھاکا کی سڑکوں پر مظاہرین نے جشن منا یا۔رپورٹ کے مطابق ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
خبر ایجنسی کے مطابق طْلبہ اپنے خاندان والوں کے ساتھ سڑکوں پر جشن منا رہے تھے۔یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں جاری حکومت مخالف مظاہروں میں جھڑپوں کے دوران مرنے والوں کی مجموعی تعداد کم از کم 300 ہو گئی ہے۔