اسلام آباد ہائیکورٹ،عمران خان کے فوکل پرسن انتظار پنجوتھا کی بازیابی کی درخواست پر اٹارنی جنرل طلب

0
27

اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے فوکل پرسن انتظار پنجوتھا کی بازیابی کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو (کل)بدھ کو طلب کر لیا۔ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے بازیابی درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل علی بخاری، آئی بی افسر اور آئی جی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔آئی جی اسلام آباد نے تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی، آئی ایس آئی اور ایم کی رپورٹ جمع کروا دی گئی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے علی بخاری سے استفسار کیا کہ میں نے آئی بی کی رپورٹ دیکھی ہے مجھے کوئی سمجھ نہیں آئی، کیا آپ کو کوئی سمجھ آئی؟ جس پر علی بخاری کا کہنا تھا کہ ہم نے بھی دیکھی ہے ہمیں بھی کوئی سمجھ نہیں آئی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پہلے ان سے کہتے ہیں وضاحت کریں پھر آئی جی صاحب سے پوچھتے ہیں۔آئی بی افسر نے عدالت کو بتایا کہ یہ نمبر ایکٹویٹ نہیں ہوا، انٹرنیٹ کسی اور ڈیوائس سے استعمال ہوا، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے استفسار کیا کہ مطلب انٹرنیٹ استعمال نہیں ہوا اس نمبر پر، انٹرنیٹ کسی اور ڈیوائس سے استعمال ہوا۔آئی جی اسلام آباد نے مؤقف اپنایا کہ آئی بی کی رپورٹ کے مطابق اس سم کو انٹرنیٹ کیلئے استعمال نہیں کیا جا رہا بلکہ کوئی اور سورس استعمال کر رہا ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پوچھا کہ میں اگر سم پر انٹرنیٹ استعمال کر رہا ہوں پھر وائی فائی سے کنکٹ ہو جاتا ہے تو کیا ہو گا، جس پر آئی جی نے کہا کہ اگر سم ڈیٹا بند ہوتا ہے تو وائی فائی کنکٹ ہوتا ہے تو سم کو انٹرنیٹ سے ٹریس نہیں کیا جا سکتا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے علی بخاری سے استفسار کیا کہ آپ کو سمجھ آئی کیا کہا آئی جی صاحب نے، جس پر علی بخاری نے مؤقف اپنایا کہ میں ٹیکنیکل آدمی نہیں عام آدمی ہوں۔علی بخاری نے کہا کہ میں اس ملک میں رہتا ہوں، جہاں 25، 26 خفیہ ایجنسیاں ہیں، آپ افسران کو بلا لیں بندہ آ جائے گا، مزید کہا کہ کل مجھے اٹھا لیا جاتا ہے تو کہیں گے ہمیں نہیں پتا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے استفسار کیا کہ 15 دن ہو گئے ہیں بندہ غائب ہے، آپ کے پاس جو رپورٹ آئی ہے اس کے بعد کیا کرنا ہے۔آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ ہم نے ریورس انجینئرنگ کے لیے ایف آئی اے اور سی ٹی ڈی پنجاب کو واٹس ایپ کے آئی پی ایڈریس لینے کے لیے لکھا ہے، رپورٹ کے مطابق انتظار پنجوتھا کے نام پر 3 سمیں ہیں ان میں سے ایک سم کی لوکیشن پشاور ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ آپ پشاور کی لوکیشن پر گئے ہیں؟ جو نمبر آپ نے دیا ہے یہ انہی کے نام پر ہے؟ جس پر آئی جی اسلام نے کہاکہ جی بالکل یہ سم انتظار پنجوتھا کے نام پر ہے، 10 اکتوبر کو ایکٹویٹی ہوئی ہے، 8 ایس ایم ایس آئے ہیں اور 2 بھیجے گئے۔آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ جن کو میسج آیا ہے ان کو بلایا ہے کہ بتائیں کیا میسج آیا ہے جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ کیا کمپنی کے پاس ریکارڈ ہوتا ہے کیا میسج میں کیا تھا؟آئی بی افسر نے بتایا کہ میسج کا کانٹینٹ نہیں دیا جاتا، اگر ریکوسٹ ہو تو کمپنی ڈیٹا شیئر کر دیتی ہیں، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ آئی بی اور آئی جی پولیس سے تگڑی ریکوسٹ کیا ہو سکتی ہے۔علی بخاری نے دلائل دئیے کہ جو ٹیکنالوجی آئی جی صاحب نے بتائی دنیا بہت اگے چلی گئی ہے، آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ایک ٹیم پشاور اور ایک اٹک میں موجود ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ پشاور والی ٹیم سے کہیں بیرسٹر سیف سے اسٹیٹمنٹ لے لیں، جس پر آئی جی نے بتایا کہ بیرسٹر سیف ہمیں کیسز میں مطلوب بھی ہیں اور موجودہ وزیر بھی ہیں۔علی بخاری نے مؤقف اپنایا کہ آئی جی صاحب نے جتنی کوشش کی تعریف کے قابل ہے، صرف پولیس نہیں اور بھی ادارے ہیں، ان کو بھی انگیج کریں 15 دن ہو گئے ہیں بندہ غائب ہوئے۔علی بخاری نے کہا کہ 8 کو بندہ اٹھایا 10 کو موبائل میں ایکٹویٹی ہوتی ہے، جنہوں نے اٹھایا ہے، ان کے کہنے پر بھی نمبر آن ہوسکتا ہے ناں