تباہ حال غزہ ، تعمیر نو کے لیے اربوں ڈالر کا حصول ایک چیلنج ہوگا

0
23

غزہ (این این آئی )اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے بعد اسرائیلی بمباری سے ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے غزہ کی تعمیر نو کے لیے اربوں ڈالر کی ضرورت ہوگی۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یہ اندازہ اقوام متحدہ نے اپنی مختلف رپورٹس کی بنیاد پر لگایا ہے۔اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو معطل کر دیا گیا ہے۔ معاہدے کے مطابق جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 42 دن پر ہوگا اور اس دوران جنگ بندی کو مستقل کرنے کے لیے مزید مذاکرات کیے جائیں گے۔اقوام متحدہ کے جائزے کے مطابق غزہ میں سات اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی جنگ کے نتیجے میں اب تک 46913 فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں۔ ان میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔اقوام متحدہ کے تخمینہ کے مطابق غزہ میں جنگ کے نتیجے میں 50 ملین ٹن تک ملبہ موجود ہے۔ جو اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں گھروں، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، سرکاری اداروں، مساجد اور گرجا گھروں کو تباہ کیے جانے کے نتیجے میں غزہ کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ اس ملبے کو اٹھانے کے لیے 21 سال کا وقت درکار ہوگا اور ملبہ اٹھانے کی لاگت ایک ارب 20 کروڑ ڈالر آسکتی ہے۔رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں موجود ملبہ زہریلے اثرات کا حامل ہو سکتا ہے۔ اس لیے اسے مکمل طور پر تلف کرنا ضروری ہوگا۔ تاہم یہ بھی اندیشہ ہے کہ اس میں 10 ہزار کے قریب انسانی لاشیں دبی ہوئی ہیں۔اقوام متحدہ کے ڈویلپمنٹ پروگرام کے حکام نے اتوار کے روز کہا ہے اس اسرائیلی جنگ نے پچھلے 69 سال کے دوران غزہ میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کو تباہ کیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق غزہ میں ٹوٹ بکھرنے والے گھروں کی تعمیر کے لیے کئی دہائیاں لگیں گی اور کم از کم اگلے 15 سال میں ان گھروں کی تعمیر و مرمت سے کچھ کام چل سکے گا۔پچھلے سال جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد عمارات تباہ کی گئی ہیں۔ سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے پچھلے سال دسمبر میں اندازہ کیا گیا کہ 60 فیصد عمارات اور عمارتی ڈھانچے تباہ ہو چکے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ 45 ہزار 223 رہائشی یونٹس تباہ ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں 18 لاکھ سے زائد فلسطینی بیگھر ہو کر عارضی و ہنگامی خیموں کے نیچے پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2024 تک غزہ میں اسرائیلی جنگ کے نتیجے میں ساڑھے 18 ارب ڈالر مالیت کے انفراسٹرکچر کا نقصان ہوا۔ علاوہ ازیں صنعت و تجارت کا شعبہ تباہ ہوا، تعلیم ، صحت اور توانائی کے شعبے کا انفراسٹرکچر تباہ ہوا