اسلام اباد(این این آئی)سعودی عرب نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ویلا دیمیر پیوٹن کی حالیہ ٹیلیفونک رابطے کا خیر مقدم کیا ہے جس میں سعودی عرب میں دونوں رہنماوں کی ممکنہ ملاقات پر بھی گفتگو ہوئی تھی۔ سعودی عرب نے امریکا اور روس کے سربراہان کے مجوزہ ملاقات کی میزبانی کرنے پر امادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان امن کے کئے ثالثی کی کوششیش جاری رکھے گا۔
یوکرین کے بحران شروع ہونے کے بعد سعودی عرب نے مسلے کے حل کے لئے سفارتی کردار کیا ہے۔ اس سلسلے میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیزآل سعود نے مسلے کی سیاسی حل کے لئے مارچ 2022 میں روسی صدر پیوٹن اور یوکرین کے صدر ولودیمیر زلنسکی سے رابطے کئے تھے۔ گزشتہ تین سالوں میں سعودی عرب نے ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے سفارتی کوششوں کی تناظر میں کئی ملاقاتوں کی میزبانی کی ہے جس کا مقصد ڈائیلاگ کو فروغ دینا اور کشیدگی کم کرنا ہے۔
اپنی کوششوں کے علاوہ سعودی عرب نے روس یوکرین تنازعہ حل کرنے لے کئے بین الاقوامی کوششوں کی حمایت بھی کی ہے تاکہ خطے اور دنیا میں امن او استحکام ہو۔ فروری 12 کو صدر ٹرمپ نے اس امید کا اظہار کیا کہ ان کی صدر پیوٹن کے ساتھ سعودی عرب میں ملاقات ممکن ہے۔ یہ صدر ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد پہلی ملاقات ہوگی۔ امریکی صدر نے اس بیان سے پہلے صدر پیوٹن کے ساتھ تقریبا 90 منٹ تک ٹیلیفونک گفتگو کی جس میں یوکرین میں جنگ کے خاتمے پر بات ہوئی تھی۔
صدر ولودیمیر زلنسکی نے فروری 14 کو جرمنی کے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکیہ کا دورہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ یوکرین کے صدر کا سعودی عرب کا دورہ کرنے کا اعلان اس لئے اہم ہے کہ وہ شائد صدر ٹرمپ اور صدر پیوٹین کی ملاقات میں شامل نہ پو۔ اس دورے میں وہ امریکی اور روسی صدر کے ممکنہ ملاقات سے متعلق اپنی رائے سعودی رہنماوں کے ساتھ شریک کرسکتے ہیں۔
سعودی عرب اس سے پہلے اگست 2023 میں امن فارمولے پر بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کرچکا ہے۔ اگر صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کا انتخاب کیا ہے تو یہ ایک لحاظ سے روس یوکرین جنگ خاتمے کے لئے اس وقت تک سعودی عرب کی سفارتی اور پرامن حل کے لئے کوششوں کا اعتراف ہے۔ سعودی عرب کا فوری طور پر اس تجویز کا خیرمقدم اورمیزبانی کی پیشکش کے بعد اس کا قوی امکان پیدا ہوا ہے کہ صدر ٹرمپ اور صدر پیوٹن کی پہلی ملاقات سعودی عرب میں ہوجائے۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی ۔
اگرچہ ایک ملاقات میں پیچیدہ مسائل حل ہونا ممکن نہیں لیکن دو بڑی طاقتوں کے سربراہان کا ملنا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سعودی عرب نے روس امریکا سمٹ کی میزبانی کی پیشکش اس لئے خوش ائند ہے کہ ایک اہم اسلامی ملک ایک ایسے تنازعہ کے حل کے لئے فلیٹ فارم مہیا کررہا ہے جس نے پوری دنیا کو پریشان کررکھا ہے۔ جب تک روس اور یوکرین کی لڑائی جاری رہے گی تو اس تنازعہ کے پھیلنے کا خطرہ برقرار رہے گا۔ یہ جنگ شروع ہونے کے بعد اگر ایک طرف روس اور یوکرین میں سکیورٹی فورسز کا جانی نقصان ہوررہا ہے تو دوسری جانب عوام کا بھی جانی اور اقتسادی نقصان ہورہا ہے۔ اس جنگ نے دنیا میں اقتصادی مسائل میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔ اگر امریکا اور روسی صدور کی ملاقات فوری نتائج نہیں دے گا تو کا سعودی عرب کو مذاکراتی حل کے لئے اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھنی چاہیئے۔
سعودی عرب کے اس کردار کو نہ صرف اسلامی ممالک کی حمایت حاصل ہوگی بلکہ مغربی دنیا بھی اس کی اس لئے حوصلہ افزائی کرے گی کیونکہ اس جنگ میں یورپ کے اکثر ممالک ایک لحاظ سے شامل ہیں۔ اگر امریکا اور روسی سمٹ میں یوکرین بحران کے حل میں پیش رفت ہوتی ہے تو یہ دیگر تنازعات کے حل میں سعودی عرب کے ممکنہ کردار کے لئے ایک بنیاد ہوسکتی ہے۔ دنیا اور بلخصوص عالم اسلام میں اس وقت کئی دیگر مسائل اور تنازعات موجود ہیں جن میں فلسطین اور کشمیر بھی شامل ہیں۔ ان تنازعات کے حل کی بھی کوششیش کرنی چاہیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔