سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت ریاستی اداروں اور حکمراں جماعتوں کی کارکردگی سے نالاں نظر آئی ، سروے رپورٹ

0
153

اسلام آباد (این این آئی)سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت ریاستی اداروں اور حکمراں جماعتوں کی کارکردگی سے نالاں نظر آئی،ابتدائی طور پر سوشل نیٹ ورکس بشمول دور کے رشتہ داروں، دوستوں اور پڑوسیوں نے حالیہ سیلاب کے تناظر میں بڑے پیمانے پر ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔یہ پٹن کے جائزے کے سروے کا بنیادی نکتہ تھا جو 11 سے 15 ستمبر کے دوران تین صوبوں کے 14 اضلاع کے 38 آفت زدہ علاقوں میں کمیونٹی پر مبنی کارکنوں کے ذریعے کیا گیا تھا۔سروے کے مطابق زیادہ تر علاقوں میں لوگ ریاستی اداروں میں سے کسی سے خوش نہیں تھے، البتہ تین علاقوں میں الخدمت فاؤنڈیشن کو سراہا گیا ،چند ایک علاقوں میں ریسکیو 1122 اور فوج کو سراہا گیا تاہم کچھ متاثرہ افراد نے سوال کیا کہ وسائل ہونے کے باوجود ریاستی اداروں کو متاثرہ افراد تک پہنچنے میں عرصہ کیوں لگ گیا؟۔تقریباً 23 علاقوں نے لوگوں نے کسی ادارے کا نام نہیں بتایا کیونکہ کسی ادارے نے ان کے علاقوں میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔نقل مکانی کے حوالے سے 92 فیصد علاقوں کے لوگوں کو اپنے گاؤں اور محلے چھوڑنے پڑے ،8 علاقوں کے زیادہ تر لوگ سیلاب کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے تاہم 30 علاقوں میں خاندان کا ہر فرد نقل مکانی کر گیا جبکہ 8 علاقوں کے لوگوں نے کسی ایک کو پیچھے چھوڑ دیا۔کمیونٹی کے زیادہ تر افراد نے بتایا کہ بے گھر خاندانوں نے اپنی رہائش گاہوں کو واپس آنا شروع کر دیا،37 فیصد مقامات پر کوئی بھی خاندان واپس نہیں آیا۔سروے کے مطابق 151 اموات ہوئیں جن میں 51 خواتین، 49 مرد اور 51 بچے شامل تھے، متاثرہ علاقوں میں تقریباً ایک ہزار گائیں، 12 سو بھینسیں اور 3 ہزار سے زائد بکریاں اور بھیڑیں ضائع ہوئیں۔مجموعی طور پر 5 ہزار 795 پکے اور 7 ہزار 195 کچے مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ تقریباً 7 ہزار مکانات کو جزوی نقصان پہنچا۔اسی طرح 11 مقامات سے کسی نے بھی گندم کے اناج کے نقصان کی اطلاع نہیں دی، ایسا لگتا ہے کہ ان مقامات کے لوگ بہت غریب تھے اور انہوں نے کوئی گندم ذخیرہ نہیں کی، جب کہ 6 علاقوں میں گندم کا نقصان 10 سے 500 کلو گرام کے درمیان تھا اور 14 مقامات پر گندم کا نقصان 5 سو سے 8 ہزار کلو گرام کے درمیان تھا۔دو علاقوں کے علاوہ کپاس، چاول، سبزیوں، پھل دار درختوں اور چارے کی کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا۔پٹن کے سروے کے مطابق سیلاب کے 6 ہفتوں کے بعد بھی 15 مقامات کے بہت سے خاندان سڑکوں، پشتوں اور بغیر خیموں کے کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرتے ہوئے پائے گئے جب کہ 14 علاقوں کے بہت سے لوگ اب بھی اپنے گاؤں میں ہیں لیکن پلاسٹک کی ترپالوں کے نیچے رہ رہے ہیں،امداد کے حوالے سے سروے میں کہا گیا کہ 10 مقامات پر اکثریت کو کچھ بھی نہیں ملا۔سروے شدہ مقامات کی جانب جانے والی سڑکوں کے حالات کے بارے میں بتایا گیا کہ 9 علاقوں میں سڑکیں مکمل طور پر ٹوٹی ہوئی تھیں اور 17 علاقوں میں سڑکیں چھوٹی گاڑیوں کے لیے موزوں نہیں تھیں، 8 مقامات کی جانب جانے والی سڑکیں ہر قسم کی گاڑیوں کے لیے موزوں تھیں۔لوگوں کی فوری ضروریات کے بارے میں سروے میں کہا گیا کہ خشک راشن، پینے کا پانی، صابن، سینیٹری پیڈ، مچھر دانی، چارپائیاں اور کمبل/لحاف کی سب سے زیادہ ضرورت ہیں۔سروے میں ضرورت مند خاندانوں کو ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے نقد رقم کی منتقلی کی سفارش کی کہ اس سے مقامی کاروبار کو تقویت ملے گی، قرضوں میں کمی اور غبن کی حوصلہ شکنی ہوگی۔