اسلام آباد(این این آئی)وفاقی دارالحکومت سے لاپتا شہری منیب اکرم واپس گھر پہنچ گیا، جسے پولیس نے پیر کی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کردیا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ کے روبرو لاپتا شہری کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے استفسار کیا کہ لاپتا شہری کہاں سے آئے ہیں؟۔ عدالت کے سوال کرنے پر منیب اکرم نے بتایا کہ میں 19 اگست کو گھر پر سویا ہوا تھا، کچھ لوگوں نے مجھے باہر بلایا، مجھ سے لپ ٹاپ کا پاس ورڈ لیا گیااور انہوں نے کہا کہ فیس بک، ٹوئٹر آج کے بعد استعمال نہیں کرنا، پھر پانچ چھ گھنٹے بعد مجھے چھوڑ دیا گیا۔منیب اکرم نے عدالت کو بتایا کہ ان کی وجہ سے میں ڈر گیا تھا، انہوں نے مجھے کلر کہار اتار دیا ۔ میں 40 دن تک دوست کے پاس گاں میں رہا۔ جو لوگ تھے، انہوں نے شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی۔عدالت نے سوال کیا ایس ایچ او صاحب! آپ کے علاقے میں کیسے یہ لوگ گھس رہے ہیں؟۔ پولیس کے ڈی ایس پی لیگل عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کورٹ یہ سمجھنا چاہتی ہے کہ یہ شہر میں اچانک کیا ہورہا ہے؟۔عدالت نے کہا کہ آپ اپنی فیملی کو تو بتاتے اگر 6 گھنٹے بعد انہوں نے چھوڑ دیا تھا ؟، جس پر منیب اکرم نے جواب دیا کہ میں ڈرا ہوا تھا اس لیے فیملی کو نہیں بتایا ۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ریاست کی ناکامی ہے اور ریاست حفاظت کرنے میں ناکام ہے تو کوئی کیسے ہمت کرے گا ؟۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ باہر سے سی ٹی ڈیز والے آرہے ہیں کورٹ کس کو ذمے دار ٹھہرائے؟کہانیاں نہ بتائیں، یہ کورٹ آپ کی وردی کا احترام کرتی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کورٹ کئی بار کہہ چکی ہے کہ یہ ناقابل برداشت ہے ۔ کورٹ کو یہ بتائیں کس کو ذمے دار ٹھہرایا جائے کہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کی ہمت نہ کرے۔عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے سے استفسار کیا کہ آپ کی انٹیلی جنس ایجنسیز نے اس کی کوئی تحقیقات کیں؟، جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ہم نے تحقیقات کیں، لاپتا شہری ہماری کسی ایجنسی کے پاس نہیں تھا ۔ عدالت نے کہا کہ ہمارے پاس دنیا کی نمبر ون ایجنسی ہے۔اِن کا کام صرف یہ نہیں کہ وہ کہیں ہمارے پاس نہیں۔ ایجنسیز کا کام یہ بھی ہے کہ وہ تحقیقات کرکے بتائیں۔چیف جسٹس نے وزارت دفاع کے نمائندے سے استفسار کیا کہ آپ کے خیال میں یہ عدالت کسے ذمے دار ٹھہرائے ؟ جب خود ریاست کی ایجنسیز اس میں ملوث ہو جائیں تو یہی تو مشکل ہے۔ اگر لڑکا نہ ملتا تو عدالت ان سب کو ذمے دار ٹھہراتی۔ اس بچے کو جو تکلیف ہوئی ہے، اس کی ذمے داری کس پر ہے ؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ دارالخلافہ ہے کہیں تورا بورا میں تو ہم نہیں بیٹھے ہوئے۔عدالت نے کہا کہ یہ تشویشناک ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی پولیس کو تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ 15 روز میں رجسٹرار ہائی کورٹ کو جمع کرنے کی ہدایت کردی۔
مقبول خبریں
“سانحہ سوات” انجینئر امیر مقام کی رضاکار محمد ہلال سے ملاقات ،خراج تحسین ،پھولوں...
سوات (این این آئی)وفاقی وزیر و پاکستان مسلم لیگ(ن)خیبرپختونخوا کے صدر انجینئر امیر مقام نے حالیہ "سانحہ سوات" کے دوران اپنی بہادری اور انسانی...
5 جولائی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المناک باب ہے،فیصل کریم کنڈی
پشاور (این این آئی)گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے 5 جولائی 1977 کے سیاہ دن کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے...
افواج پاکستان کا بھی شہید کرنل شیر خان کو خراج عقیدت
راولپنڈی (این این آئی)مسلح افواج نے کارگل جنگ کے ہیروکیپٹن کرنل شیر خان شہید نشانِ حیدر کو ان کے 26ویں یومِ شہادت پر شاندار...
کرنل شیر خان کی بہادری یاد رکھی جائے گی، وزیراعظم
اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کیپٹن کرنل شیرخان شہید نے وطن سے وفاداری، فرض شناسی اور وطن کے...
صدر مملکت کا کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشانِ حیدر) کو خراج عقیدت
اسلام آباد (این این آئی)صدر مملکت آصف علی زرداری نے کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشانِ حیدر) کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاہے...