جان بوجھ کر سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کی، توہین عدالت کیس میں عمران خان کا جواب

0
289

اسلام آباد (این این آئی)سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 25 مئی کے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کیس میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے کہا ہے کہ اداروں کی رپورٹس حقائق کے منافی اور یکطرفہ ہیں،جان بوجھ کر سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کی، کارروائی ختم کی جائے۔تفصیلات کے مطابق 26 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کردہ عمران خان کو لانگ مارچ سے روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم سے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کیس میں جواب طلب کیا تھا جس پر عمران خان نے 31 اکتوبر کو مختصر جواب جمع کراتے ہوئے تفصیلی جواب کے لیے مہلت طلب کی تھی۔31 اکتوبر کو جمع کرائے گئے اپنے مختصر جواب میں عمران خان نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے میری طرف سے کرائی گئی کسی یقین دہانی کا علم نہیں ہے، عدلیہ کا بہت احترام ہے، سپریم کورٹ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بدھ کو توہین عدالت کیس میں عمران خان نے سپریم کورٹ میں اپنا تفصیلی جواب جمع کروا دیا، جواب عمران خان کے دستخط کے ساتھ ان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت عظمیٰ میں جمع کروایا ہے۔تفصیلی جواب میں مؤقف اپنایا گیا کہ جانتے بوجھتے سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کی گئی، یقین دہانی کرواتا ہوں کہ مجھے 25 مئی کی شام کو عدالتی حکم کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔جواب میں مؤقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں بابر اعوان کی مجھ سے ملاقات کروانی کی بھی کہا، عدالتی حکم کے باوجود انتظامیہ نے بابر اعوان کی مجھے ملاقات میں کوئی سہولت نہیں کی، 25 مئی کو 6 بج کر 45 پر کارکنان کو دیا گیا وڈیو پیغام سیاسی کارکنان کی معلومات پر جاری کیا۔اپنے جواب میں عمران خان نے کہا کہ احتجاج کے دوران جیمرز کی وجہ سے فون کی ذریعے رابطہ ناممکن تھا، نادانستہ طور پر اٹھائے گئے قدم پر افسوس ہے، اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ اداروں کی رپورٹس عدالتی حکم عدولی ثابت کرتیں ہیں۔جواب میں کہا گیا کہ اداروں کی رپورٹس حقائق کے خلاف ہیں، ایجنسیوں کی رپورٹس یکطرفہ ہیں، جواب میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے۔یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کر رہا ہے، بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی شامل ہیں۔گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم سے توہین عدالت کیس میں جواب طلب کیا تھا، اس موقع پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ فی الحال توہین عدالت کا یا شوکاز نوٹس جاری نہیں کر رہے، عمران خان کا جواب آ جائے پھر جائزہ لیں گے کہ توہین عدالت ہوئی یا نہیں۔عدالت عظمیٰ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کی حکومتی استدعا مسترد کردی تھی، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ عمران خان کے جواب کا جائزہ لے کر طے کریں گے کہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنا ہے نہیں۔اس دوران بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے بینچ کے دیگر اراکین سے اختلاف کیا تھا، 4 ججز نے سابق وزیر اعظم سے جواب طلب کیا تھا جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کارروائی سے متعلق کیس میں ڈاکٹر بابر اعوان نے توہین عدالت کیس میں جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا۔جواب میں مؤقف اپنایا گیا کہ 25 مئی کو ایڈووکیٹ فیصل فرید نے مجھے عدالتی نوٹس کا بتایا، بطور وکیل چالیس سال عدلیہ کی معاونت میں گزارے، اسد عمر نے رابطہ پر زبانی ہدایات دی، اسد عمر کی زبانی ہدایات پر سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی۔جواب میں بابر اعوان نے کہا کہ عدالت کو ارادی یا غیر ارادی طور پر گمراہ نہیں کیا، اچھی نیت سے عدالت کی معاونت کی، عدالتی حکم کے مطابق پی ٹی آئی لیڈرشپ سے میری اور فیصل چوہدری کی ملاقات کا انتظام حکومت کی ذمہ داری تھی، حکومت نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا، 26 مئی کو عدالت کو حکومت کیطرف ملاقات کے انتظامات نہ کرنے سے متعلق آگاہ کیا، عدالت نے 26 مئی کو قرار دیا لانگ مارچ کے ختم ہو چکا ہے۔جواب میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا معاملہ کی تفصیل میں جانے کی ضرورر باقی نہیں رہی، اپنے جواب میں ڈاکٹر بابر اعوان نے توہین عدالت کی کارروائی سے اپنا نام نکالنے کی استدعا کردی۔دوسر ی جانب پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چودھری نے تحریری جواب جمع کروا دیاجس میں کہاگیاکہ توہین عدالت کی درخواست تاخیر سے جمع کروائی گئی۔ فیصل چوہدری نے کہاکہ 25 مئی کو عمران خان کی جانب سے نہ تو کوئی ہدایات تھیں اور نہ میں ان کی جانب سے پیش ہوا۔فیصل چودھری نے کہاکہ 25 مئی کو عدالتی حکم پر ایک سے ڈیڑھ بجے کے درمیان اسد عمر سے رابطہ ہوا